سے حسن سلوک سے پیش آنا۔ کیونکہ ایک تو ان کا ذمہ ہوگا (یعنی ذمی بن جانے کی وجہ سے ان کا حق قائم ہوجائے گا) دوسرا یہ کہ ان سے قرابت داری اور صہریت کا تعلق ہے۔ (قرابت داری سیدہ ہاجرہؓ کی وجہ سے اور صہریت حضرت ماریہ قبطیہؓ کی وجہ سے) جب تو دیکھے کہ دو آدمی ایک اینٹ کے برابر زمین پر لڑ رہے ہیں۔ تو وہاں سے چلے جانا۔ حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں: چنانچہ میں نے بعد میں دیکھا کہ حضرت شرحبیل بن حسنہؓ (جلیل القدر صحابی تھے اور سپہ سالار بھی) کے دو بیٹے ربیعہ اور عبدالرحمن ایک اینٹ کے برابر کی جگہ پر لڑ رہے ہیں تو میں وہاں سے چلا گیا۔
(مسلم شریف ج۲ ص۳۱۱)
بطور مشتے نمونہ از خروار، ہم نے تین مثالیں نقل کرکے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ لسان نبوت سے نکلی ہوئی پیشین گوئیاں عین حق وصواب ہوتی ہیں۔ ایک مسلمان کے لئے بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ خود زبان نبوت (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) سے سنے یا صحیح سند سے اس تک پہنچے تو وہ کہہ اٹھے۔ برحق! ’’اٰمنا بہ وصدقنا‘‘
دمشق، عہد نبوت میں اسلامی عملداری میں نہیں تھا، تو نہ سہی، وہاں قریب ’’المنارۃ البیضائ‘‘ نہیں تھا تو نہ سہی، لیکن ہمارے آقاؐ نے جب یہ فرما دیا تو ایسا ہوکر رہے گا۔ یہ تو تھی ایمان بالغیب کی بات اور ایمان کی مضبوطی کی علامت۔ اب پڑھئے درج ذیل حوالہ اور پہلے کوئی شک وارتیاب کا کانٹا دل میں کھٹک رہا تھا۔ تو اسے نکال پھنکئے۔
یہ مزید واضح کردینا ضروری ہے کہ ہم نے یہاں نمبر ۷ کا حوالہ دیا ہے۔ حالانکہ حضرت نواس بن سمعانؓ کی روایت نمبر ۶ (بحوالہ مسلم، ترمذی، ابو دائود، ابن ماجہ وغیرہ) میں بھی ’’ثم ینزل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔ اب اس بارے میں امت مسلمہ کے دو جلیل القدر بزرگوں کے فرمان سنئے:
{حافظ عماد الدین بن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے مقام نزول کے بارے میں زیادہ مشہور یہی ہے (کہ آپؑ دمشق کے مشرقی جانب سفید منارہ پر نازل ہوں گے) اور ہمارے زمانہ ۷۴۱ھ میں سفید پتھر سے ایک منارہ کی از سر نو تعمیر ہوچکی ہے۔ اس سے پہلے جو منارہ تھا۔ اسے عیسائیوں نے جلا دیا تھا۔ پھر زیادہ تر انہی کے مال سے موجود منارہ بنایا گیا اورشاید یہ آنحضرتﷺ کی نبوت کے واضح دلائل میں سے ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام