مریم علیہ السلام دمشق سے مشرقی جانب سفید منارہ کے پاس اتریں گے۔ آپ غور فرمائیے کہ جس وقت رسول اﷲﷺ نے یہ پیشین گوئی ارشاد فرمائی تھی اس وقت نہ تو دمشق اسلامی عملداری میں شامل تھا۔ نہ وہاں کوئی سفید منارہ، لیکن اگر کوئی بندہ کلمہ گو ہوکر شک وارتیاب کی بھول بھلیاں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ تو ہمارے نزدیک وہ مقام نبوت کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ اسلامی ادب کا مطالعہ کرے۔ شاید اس کے دل کے پردے دور ہوجائیں۔ ہم پیشین گوئیوں کی چند مثالیں یہاں درج کرتے ہیں۔
۱… رسول اﷲﷺ اپنے رفیق جاں نثارؓ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کہ مدینہ منورہ تشریف لے جارہے ہیں۔ سراقہ بن مالک (اس وقت وہ صرف سراقہ تھا۔ حضرت سراقہ غزوہ احد کے بعد بنا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)قریش مکہ کے اعلان کردہ انعام کے لالچ میں تعاقب کرتا ہے۔ آپ اس سے فرماتے ہیں: ’’سراقہ! اس وقت تیرا کیا حال ہوگا۔ جبکہ شاہ ایران کے سنہری کنگن تجھے پہنائے جائیں گے۔‘‘
اس وقت تو سراقہ سوچ بھی نہیں سکتا ہوگا کہ ایسابھی کبھی ہوگا۔ لیکن اﷲ کی شان! سولہ سال بعد ایران کا دارالسلطنت مدائن فتح ہوا اور غنیمت کا مال سیدنا فاروق اعظمؓ کے سامنے آیا۔ تو محض اﷲ کے رسولﷺ کی پیش گوئی کی تصدیق کے لئے سیدنا فاروق اعظمؓ سمیت صحابہ کرامؓ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور سنہری کنگن حضرت سراقہؓ کے ہاتھوں میں ڈالے گئے۔
(دیکھئے : استیعاب ابن عبدالبرؒ)
۲… صحاح وغیرہ میں ایک روایت ہے کہ ایک شخص مرتد ہوکر کافروں کے پاس چلا گیا اور بکواس کرتا پھرتا۔ رسول اﷲﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا: ’’ان الارض لا تقبلہ‘‘ زمین اسے قبول نہیں کرے گی۔ حضرت ابو طلحہ انصاریؓ بدری صحابی ہیں (غالباً آقائے دو جہاںﷺ کی قبر شریف کی تیاری کی خدمت بھی انہیں نے سرانجام دی تھی) فرماتے ہیں: میں اس شخص کے عزیزوں کے ہاں گیا تو دیکھا اس کا لاشہ باہر پڑا ہے۔ ان لوگوں نے بتایا۔ ہم نے کئی مرتبہ اسے دفن کیا مگر زمین اسے باہر نکال پھینکتی تھی۔
۳… حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: تم لوگ سر زمین مصر کو فتح کرو گے۔ اس میں قیراط کے نام سے سکہ چلتا ہوگا۔ جب تم اسے فتح کرلو تو وہاں کے لوگوں