قارئین کو یہ مغالطہ نہیں لگنا چاہئے کہ گمراہی صرف ’’جہل‘‘ کے راستہ سے آتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ’’اضلہ اﷲ علی علم‘‘ کا مصداق بن جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔ بچائو کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انسان کتاب وسنت کو ہدایت کا سرچشمہ سمجھے اور ’’کونوا مع الصادقین‘‘ کو زندگی کا قانون (Principle of Life) بنائے۔ اقبال مرحوم کہتے ہیں:
ہست دین مصطفی دین حیات
شرع او تفسیر آئین حیات
حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات میں کہیں ایک حدیث شریف پڑھی تھی کہ جب فتنوں کا ظہور ہو اور دین میں نئی نئی باتیں نکالی جانے لگیں تو علم والے پر فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے علم کو ظاہر کرے۔ یہ روایت کسی کو سنداً مجروح بھی نظر آتی ہو تب بھی ’’تواصوابالحق‘‘ کا تو ہر مسلمان پابند ہے۔ اور یہ آیت کریمہ بھی قرآن پاک میں موجود ہے:
’’ان الذین یکتمون ما انزلنا من البینات والہدی من بعد ما بیّنہ للناس فی الکتاب اولئک یلعنہم اﷲ ویلعنہم اللٰعنون (البقرۃ:۱۵۹)‘‘ {جو لوگ اخفا کرتے ہیں ان مضامین کا جو کہ واضح ہیں اور ہادی ہیں۔ اس حالت کے بعد کہ ہم ان کو کتاب میں عام لوگوں پر ظاہر کرچکے ہوں۔ ایسے لوگوں پر اﷲ تعالیٰ بھی لعنت فرماتے ہیں اور لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔}
راقم السطور نے کتاب وسنت کے ایک ادنیٰ سے طالب علم ہونے کے باوجود یہ جرأت کی ہے کہ مسئلہ زیر تحریر پر چند اوراق سیاہ کردئیے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اپنے اس گنہگار بندے کی حقیر سی جدوجہد کو شرف پذیرائی بخشے۔
’’تمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا، لا مبدل لکلمتہ وہو السمیع العلیم‘‘
استدراک
اپنی گزارشات کو ختم کرنے سے پہلے ہم چند باتوں کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔ قارئین توجہ سے ملاحظہ فرمائیں گے۔