حدیث بالا میں سوال اشرائط الساعۃ کے بارے میں تھا۔ اس لئے جواب میں بھی اسی قسم کی باتیں ارشاد فرمائی گئیں۔ موقع محل کے مطابق نہایت بلیغ جواب تھا۔ جہاں دوسری قسم کی علامات کے ذکر کا موقع تھا۔ وہاں رسول اﷲﷺ نے وہ ارشاد فرما دیں۔
اگر قیامت پر ایمان ہے تو ’’بالآخرۃ ہم یوقنون‘‘ کی تکمیل کے لئے دونوں قسم کی علامات کو ماننا ضروری ہوگا۔ ہم نے کلمہ پڑھا ہے ’’لا الٰہ الّا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ تو جو کچھ اﷲ رب العزت نے فرما دیا، وہ بھی عین حق وصواب اور جو اس کے رسول ﷺ نے فرما دیا وہ بھی برحق۔ ’’امنا بہ وصدقنا‘‘ آقائے دو جہاں ﷺ کی تعلیمات ، خواہ وہ کتاب اﷲ کی شکل میں ہوں۔ خواہ حدیث کی شکل میں۔ دونوں کو ماننا اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنا ہی صراط مستقیم ہے۔ آپ کی تعلیمات کیخلاف کسی کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
کتب احادیث میں کتاب الفتن کی احادیث پڑھ کر دیکھئے۔ کہیں آپ کو رسول اﷲﷺ کا یہ فرمان گرامی نظر آئے گا: ’’بادروابالاعمال فتناً کقطع الیل المظلم‘‘ کہیں یہ الفاظ ملیں گے: ’’ان بین یدی الساعۃ فتنا کقطع الیل المظلم‘‘ ان ارشادات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ آج ادھر ادھر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے موجود ہیں۔ جاہلوں کی تو بات چھوڑئیے۔ بڑے بڑے اسکالرز اور ’’مولانا‘‘ کا سابقہ رکھنے والے لوگ اوٹ پٹانگ مارتے ہیں۔ ایک صاحب تین سو سال کے علماء کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کے مقابلہ میں ایک مشرک (مسٹر گاندھی) کو صائب الرائی مجتہدی قرار دیتے ہیں۱؎۔ دوسرے صاحب ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو اسلامی نظریہ قرار دیتے ہیں۲؎۔ تیسرے صاحب خروج دجال اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کے عقیدہ کو غلط اور باطل قرار دیتے ہیں۳؎۔ فوا اسفائ!
۱؎ یہ ہیں مولانا وحید الدین خاں آف انڈیا، دیکھئے ان کی کتاب ’’فکر اسلامی‘‘ مطبوعہ کراچی ص۴۲،۱۰۳۔
۲؎ میرا اشارہ ہے جناب ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب کی طرف، جن کی دینی خدمات سر آنکھوں پر۔ لیکن اس مسئلہ میں وہ ٹھوکر کھاگئے۔
۳؎ یہ صاحب اس مضمون میں ہمارا موضوع رہے ہیں۔ یعنی مولانا محمد اسحاق سندیلوی مرحوم۔