’’ماالاسلام؟‘‘ جواب میں ارکان خمسہ ارشاد فرمائے گئے جو علم فقہ کا موضوع ہے۔
’’ماالاحسان؟‘‘ جواب میں فرمایا کہ انسان عبادت کرے تو اس کی روحانی اور باطنی کیفیت کیا ہونی چاہئے؟ یہ علم تصوف اور طریقت کا موضوع ہے۔
ہر شخص چونکہ کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے نتائج اور معاوضہ کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اس وجہ سے چوتھا سوال سید الملائکہ نے یہ کیا کہ: ’’متی الساعۃ‘‘ جواب میں ارشاد فرمایا گیا: ’’ماالمسئول عنہا باعلم من السائل‘‘ پھر کہا: اچھا! اگر اس کے وقت کا تعین نہیں فرما سکتے۔ تو اس کی علامت اور نشانیاں ہی بیان فرما دیجئے۔ رسول اﷲﷺ نے جواب میں چند ایک علامات ارشاد فرماویں۔ یہ وہ علامات ہیں جو فناء عالم کے لئے تمہیدی واقعات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان علامات میں نظام معیشت کے تعطل اور برسراقتدار طبقہ کے حق گوئی اور حق شنوائی سے محرومی کا بھی ذکر فرمایا۔ ’’رایت الصم البکم ملوک الارض‘‘ (آپ دیکھیں گے کہ گونگے بہرے زمین پر بادشاہ ہوں گے۔)
قارئین اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں۔ آج کتنے کلمہ گو مسلمان ہیں۔ جن کے پیش نظر رسول اﷲﷺ کا یہ ارشاد گرامی ہے اور کتنے بندگان خدا ہیں جو اپنی زندگیاں ان تعلیمات کے سانچہ میں ڈھالنے کے لئے تیار ہیں؟ کیا اس غفلت شمار ماحول کو مزید ناواقف اور غافل بنایا جائے؟ کیا نیند کے متوالوں کو مزید نشے کی گولیاں دی جانی چاہئیں؟ ان سے یوں کہا جائے کہ صاحب! یہ جو قیامت کی نشانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ یہ سب غلط اور باطل ہیں نہ کوئی دجال آئے گا۔ نہ کوئی عیسیٰ مسیح نازل ہوں گے۔ اس سلسلہ کی تمام روایات جعلی اور وضعی ہیں۔ پھر یہ کو ئی دین داری تو نہ ہوئی۔ بلکہ اس کافرانہ عقیدہ کی تائید ہوئی۔ کہ :’’ان ھی الا حیاتنا الدنیا، نموت ونحیا وما نحن بمبعوثین‘‘۔
یہاں پر اس بات کی وضاحت کردینا مناسب ہوگا کہ علامات قیامت دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جو فنا عالم کے لئے تمہیدی واقعات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہیں محدثین امارات یا اشراط سے تعبیر کرتے ہیں۔ دوسری وہ جو قیامت کے قریب گویا آغاز قیامت کے طور پر نمودار ہوں گی۔ خروج دجال، نزول سیدنا عیسیٰ علیہ السلام۔ طلوع الشمس من المغرب دوسری قسم کی علامات میں سے ہیں۔ محدثین حضرات نے العلامات بین یدی الساعۃ کے عنوان سے تعبیر کیا ہے۔
(دیکھئے مشکوٰۃ شریف ص۴۶۹ اور ص۴۷۲)