ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور! اللّٰہم اجرنا من خزی الدنیا وعذاب الآخرۃ!‘‘
واضح رہے کہ مؤطا امام مالک کی پوری روایت مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی اپنی کتاب ازالۂ اوہام میں ترجمہ سمیت نقل کی ہے۔
راقم السطور نے حضرت امام شافعیؒ کا ایک فرمان کہیں پڑھا تھا کہ بالفرض والتقدیر! اگر قرآن پاک کی صرف ایک سورۃ ’’العصر‘‘ ہی نازل ہوئی ہوتی تو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے کافی تھی۔ اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے۔ راقم السطور کہتا ہے کہ ذخیرۂ احادیث میں یہی کیفیت ’’حدیث جبریل‘‘ کی ہے۔ جو کتب حدیث میں سے بخاری سے لے کر ریاض الصالحین شریف اور اربعین نووی تک تمام میں درج ہے۔
یوں تو آنحضرت ﷺ نے اپنے فضائل کے ضمن میں ارشاد فرمایا: ’’اوتیت جوامع الکلم‘‘ اور محولہ بالاحدیث شریف میں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ علم دین کا عطر اور جوہر (Essense) آگیا ہے۔ یہ حدیث کی مشہور ومعروف کتاب ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ کی کتاب الایمان کی پہلی حدیث ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک سائل بارگاہ نبوتؐ میں حاضر ہوتا ہے اور چند سوالات کرتا ہے۔ پہلے بڑے ادب سے دوزانوں ہوکر بیٹھتا ہے اور سوالات کا سلسلہ شرو ع کرتا ہے۔ جواب سن کر ساتھ ساتھ کہتا ہے: صدّقت۔ صحابہ کرامؓ اس کی یہ روش دیکھ کر بڑے ہی حیران ہوتے ہیں کہ عجیب قصہ ہے۔ سوال کرتا ہے اور جواب کی تصدیق کرتا چلا جاتا ہے۔ اور اس کے چلے جانے کے بعد آنحضرتﷺ فرماتے ہیں: کچھ پتہ چلا کہ یہ کون تھا؟ صحابہ نے حسب عادت کہا: ’’اﷲ ورسولہ اعلم!‘‘ ارشاد فرمایا: یہ جبریل تھے۔ تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔
ذرا غور کیجئے! سوال کرنے والے سید الملائکہ، حضرت جبریل علیہ السلام! جواب دینے والے: سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ!
امت تک یہ خبر پہنچانے والے: سید المحدثین جن کی شان یہ ہے کہ : ’’کان رأیہ موافقاً للوحی والکتاب‘‘ یعنی سیدنا عمر بن الخطاب ؓ۔ نیز کتب حدیث میں اور بھی کئی حضرات سے یہ روایت آئی ہے۔
سوالات کیا ہیں؟ ’’ماالایمان‘‘ جواب میں آپؐ نے دین کے بنیادی عقائد بیان فرمائے۔ جو علم عقائد کا موضوع ہے۔