تفسیر ابن کثیر میں کہیں مرفوعاً ایک حدیث حضرت انسؓ سے آتی ہے: ’’لا تعجبوا باحدٍ حتیٰ تنظرو ابم یختم لہ‘‘ {کسی آدمی کے حال کو اچھا نہ سمجھو۔ یہاں تک کہ انتظار کرو کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوا؟ اور دارمی شریف میں سیدنا فاروق اعظمؓ کا فرمان ہے کہ تین چیزیں اسلام کی بنیاد کو ڈھا دیتی ہیں۔}
’’زلۃ العالم وجدال المنافق بالکتاب وحکم الائمۃ المضلین‘‘ (دارمی) {عالم کی لغزش، منافق آدمی کا اﷲ کی کتاب کو آڑ بنا کر لڑنا جھگڑنا اور گمراہ کن فرمائوں روائوں کی حکومت۔}
اس لئے بندہ ہر وقت اﷲ سے ڈرتا رہے۔ کچھ پتہ نہیں کہ کس وقت وہ تسویل شیطانی کا شکار ہوکر منزل سے دور چلا جاتا ہے۔ اس کی واحد تدبیر یہ ہے کہ کونوا مع الصادقین پر عمل پیرا رہے: ’’اعاذنا اﷲ من سوء الخاتمۃ!‘‘
صاحب موصوف کی یہ ترقی معکوس بڑی حیرت انگیز ہے کہ عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں انہوں نے مرحلہ وار رجعت قہقری کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ چنانچہ:
۱… پہلے انہوں نے احادیث کے تواتر کا انکار کیا۔
۲… دوسرے مرحلہ میں احادیث کی صحت کو مشکوک قرار دیا۔ اور یہاں تک لکھ دیا کہ تار عنکبوت کے برابر بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
۳… تیسرے مرحلہ میں احادیث کے متون کے ساتھ ان کی اسانید کو بھی جعلی اور موضوع قرار دیا۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ’’سند‘‘ کو بھی موضوع کہا جائے۔ کیا اصطلاحات حدیث میں ’’موضوع بند‘‘ کا لفظ بھی کہیں ملتا ہے؟
۴… چوتھے مرحلہ میں عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام کو ’’یہودیت اور سبائیت‘‘ کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ قرار دیا۔ کیا اس عقیدہ سے یہود کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے؟
۵… پانچویں یہ بڑی تعجب خیز بات ہے کہ امام اعظمؒ کی ’’فقہ اکبر‘‘ان کے سامنے ہے۔ لیکن اس کی آخری سطور نظر نہیں آئیں۔ مؤطا امام مالک کو دیکھ رہے ہیں۔ مگر بات دماغ میں نہیں گھستی۔
اب ہم سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ: ’’فانہا لا تعمی الابصار ولکن