اب اس حدیث شریف کو پڑھ کر دیکھئے۔ کیا سمجھ میں آتا ہے کہ یہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی سابقہ زندگی کا واقعہ ہے؟ کیا یہ وہی تفصیل نہیں ہے۔ جو خروج دجال اور نزول مسیح علہی السلام کی روایات میں آئی ہے؟ سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام کا وہی حلیہ مبارک، وہی زلفیں، وہی دو آدمیوں کے درمیان سہارا لئے ہوئے۔ اور پھر دجال کا اس موقع پر ذکر اور اس کا بھی تقریباً وہی نقشہ۔ روایت صحت میں نہایت اعلیٰ درجہ کی۔
کوئی شخص یہ کہہ کر کیوں اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فلسطین سے آکر خانہ کعبہ کا طواف کیا ہوگا۔ کیا آپ کسی تاریخی کتاب یا انسائیکلو پیڈیا Encyclopedia سے اپنے اس ’’خیال‘‘ کا ثبوت پیش کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اﷲ کے رسولﷺ کے ارشادات عالیہ کو بلا کم وکاست تسلیم کرلیں۔
’’یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ ایک طرف تو یہ صاحب اصول مقرر کرتے ہیں کہ جب دو خبروں کے حصول کا ذریعہ ایک ہو تو اس کی کوئی وجہ نہیں کہ ایک کو تسلیم کرلیا جائے اور دوسری کو نہیں۱؎۔ دوسری طرف یہ صاحب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ’’رفع الی السمائ‘‘ کو تو تسلیم کرتے ہیں۔ نزول کو نہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کہیں یہ بات تو نہیں کہ وہ اپنے اس فرمان کا مصداق بن رہے ہوں۔ نبی کے پیش کئے ہوئے تصور کو بعینہ قبول کرنا۔ اس کی مرضی کیخلاف ہوتا ہے۔ اور کلیۃ انکار بھی طاقت سے باہر ہے۔ ایک درمیانی راستہ کی تلاش اسے آمادہ کرتی ہے کہ اپنے تصورات کی آمیزش نبوی تعلیمات میں کرے۔‘‘
قارئین بہت دیر سے ان صفحات کو پڑھ رہے ہیں۔ وہ یہ جاننے کے لئے سراپا انتظار ہوں گے کہ آخر یہ کون صاحب ہوں گے۔ یہ ہیں مولانا محمد اسحاق سندیلوی، اور ان کی کتاب جس سے او پر اقتباسات دئیے گئے ہیں۔ اس کا نام ہے۔’’دینی نفسیات‘‘ ہم اب بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ باب چہارم ان کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ یہ کسی افتراء پرداز، دروغ گو، جاہل کا اضافہ ہے۔ ایسی سازشیں زنادقہ اور ملحدین کی طرف سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔ دسویں صدی ہجری کے نام ور عالم اور مصنف علامہ عبدالوہاب شعرانیؒ کی ’’الیواقیت والجواہر‘‘ ص۷ پڑھ کر دیکھئے! عجیب وغریب انکشافات سامنے آئیں گے۔ ایسی ہی کوئی سازش یہاں بھی کار فرما ہے۔ اور اگر واقعی یہ ان کا لکھا ہوا ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اخیر عمر میں انہوں نے بہت برا کیا۔
۱؎ دیکھئے پیچھے گذرا ہوا اقتباس نمبر۳