۱… سب سے پہلے قارئین یہ یاد رکھیں کہ مو ٔـطا امام مالک۔ یہ کتاب اس طرح کی نہیں ہے کہ حضرت امام صاحبؒ نے خود بیٹھ کر ایک مصنف کی حیثیت سے اسے لکھا ہو۔ مؤطا کے نام سے جو کتاب بھی آپ سنیں گے کہ دوسری صدی میں لکھی گئی تھی۔ یہ سب امام صاحب کے نامور تلامذہ نے مرتب کیں۔ چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ نے ایسے پندرہ مجموعے گنوائے ہیں۔ مولانا عبدالحئی لکھنو یؒ نے التعلیق الممجد میں اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔ ان سب میں مطبوعہ مجموعوں میں سے جس کو مؤطا امام مالک کہا جاتا ہے۔ یہ حضرت امامؒ کے تلمیذ رشید یحییٰ بن یحییٰ ممصمودی اندلسیؒ کا ترتیب دیا ہوا ہے۔ چنانچہ ہر روایت کے ساتھ سند لاتے ہوئے پہلے امام مالک کا نام ضرور آتا ہے۔ یہی کیفیت مؤطا کی ہے۔ جو اب مؤطا امام محمد کہلاتا ہے۔ در اصل وہ بھی مؤطا امام مالک ہی ہے۔
۲… مؤطا کی تصنیف ، تدوین حدیث کے ابتدائی دور کی ہے اور قارئین یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اس میں مسند (یعنی باسند) کل روایات مرفوعہ (یعنی آنحضرتﷺ) کے ارشاد گرامی چھ سو ہیں۔ دو سو سے کچھ اوپر مرسل روایات ہیں۔ اب کیا خیال ہے آپ کا کہ اس تھوڑی سی تعداد میں آپ کی تمنا ضرورپوری ہوجانی چاہئے۔
۳… مؤطا شریف اصالتاً ان مضامین پر مشتمل ہے جو انسان کی عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس کا آغاز ہی نماز کے اوقات کے بیان سے ہوتا ہے۔
شاید ان صاحب کو معلوم ہو کہ علم حدیث کی وہ کتاب جو آٹھ قسم کے عنوانات پر مشتمل ہو۔ اسے محدثین کی اصطلاح میں ’’جامع ‘‘کہا جاتا ہے ان آٹھ مباحث میں عقائد، احکام فقہیہ، تفسیر، مناقب، اخلاقیات، غزوات، فتن اور علامات قیامت شامل ہیں۔ کیا مؤطا شریف میں غزوات کا بیان ہے۔ جبکہ کتاب الجہاد موجود ہے؟ کیا اس میں مناقب ہیں؟ کیا تفسیری روایات ہیں؟ جب یہ ساری باتیں نہیں ہیں۔ جہاد کے مسائل پر حدیثیں موجود ہیں۔ لیکن غزوہ بدر، احد اور حنین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ تو آپ کا نفسیاتی اصول کہاں گیا؟ مؤطا شریف تو ایک مختصر سا مجموعہ ہے او ر جو کچھ ہے۔ اﷲ کی نعمت ہے۔ آپ اس سے وہ توقع کیوں کرتے ہیں۔ جو ایک جامع سے کی جاسکتی ہے۔
۴… یہ تو پھر بھی غنیمت ہے کہ مؤطا شریف میں ’’صفۃ عیسیٰ بن مریم والدجال‘‘ کا باب آگیا ہے اور آیا بھی کس شان سے ہے؟ اس سند کے ساتھ جو محدثین کے نزدیک اصح