ابھی جو ہم نے پانچ حوالہ جات نقل کئے ہیں۔ یہ کتاب کے حصہ اول سے لئے گئے ہیں اور ان سے پہلے جو دس حوالہ جات دئیے گئے ہیں۔ وہ حصہ سوم کے باب چہارم سے نقل کئے گئے ہیں۔ کتاب مصنف کی زندگی میں طبع ہوئی تھی تو اس وقت باب چہارم شامل نہیں تھا۔ اس باب کا اضافہ ان کی وفات کے بعد ہوا۔ بظاہر حصہ اول اور حصہ سوم باب چہارم کی عبارتیں ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اور اگر واقعی یہ باب اسی بزرگ کی جنبش قلم کا نتیجہ ہے تو پھر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہم نے کلمہ محمد مصطفیﷺ کا پڑھا ہے۔ اسی پر جینا چاہتے اور اسی پر مرنا۔ ’’واﷲ نسأل حسن الخاتمۃ!‘‘
قارئین نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ اوپر جو ہم نے حصہ چہارم کے دس اقتباسات دئیے ہیں ان میں سے پہلے آٹھ کو الگ لکھا ہے اور پچھلے دو کو الگ، پہلے آٹھ حوالہ جات کی تردید کے لئے ہمیں مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سابقہ اوراق کا مطالعہ انشاء اﷲ اس سلسلہ میں کافی رہے گا۔ رہے اقتباس نمبر۹ اور ۱۰ تو ان کے بارے میں ہم کچھ عرض کردینا ضروری سمجھتے ہیں۔
اقتباس نمبر۹ کو پھر دیکھ لیجئے تعجب ہے کہ شرح فقہ اکبر کتاب مضمون نگار کے سامنے ہے۔ چنانچہ اس نے ص۵۹۱ پر اس کتاب کا نام لیا ہے۔ اور ایک اصولی بات کی طرف قارئین کو توجہ دلائی ہے۔ وہ ’’شرح فقہ اکبر‘‘ کے صفحہ ۱۲۳ کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ان سے چند صفحات آگے وہ کھول کر دیکھ لیتے تو انہیں نظر آجاتا کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کیا فرماتے ہیں؟ معلوم رہے کہ ’’فقہ اکبر‘‘ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی کتاب ہے اور اس کی یہ شرح دسویں صدی ہجری کے نامور محدث علامہ علی قاریؒ کی طرف سے ہے۔ تو متن کی عبارت یہ ہے:
’’وخروج الدجال ویاجوج وماجوج وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السماء وسائر علامات یوم القیٰمۃ علی ماوردت بہ الاخبار الصیحۃ حق کائن واﷲ یہدی من یشاء الی صراط مستقیم‘‘ {دجال اور یاجوج صحیح وارد ہیں۔ حق ہیں اور ہوکر رہیں گی۔ اور اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں صراط مستقیم کی ہدایت فرماتے ہیں۔ }
اس کی شرح میں علامہ علی قاریؒ فرماتے ہیں: