زیر بحث مصنف میں بھی یہی بنیادی خرابی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بھی دین کو عقل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی۔ آپ اوپر کے حوالہ جات ۱ تا ۸ کو پھر پڑھ کر دیکھئے ۔ وہ تدریجاً آگے بڑھتے چلے گئے اور حوالہ ۱۰ کو دیکھئے کہ وہ اپنے خود ساختہ نفسیاتی اصول کے تحت ایک مسلمہ عقیدہ کو رد کررہے ہیں۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو ان سے پوچھا جاتا۔ جناب محترم! ’’نفسیاتی اصول ‘‘ آپ نے قرآن کریم کی کس آیت اور حدیث پاک کے کس جملہ سے اخذ کیا ہے؟ آپ محدثین کرام کی کس کس کتاب پر یہ اصول نافذ کریں گے؟ آپ کو صحیح بخاری اور جامع ترمذی وغیرہ میں یہ اصول کہیں نظر آتا ہے؟ قرآن پاک کے کسی ایک رکوع کی نشاندہی کیجئے۔ جہاں آپ اس اصول سے کام لے سکتے ہوں۔ اچھا اب آپ ان عبارات کو پڑھئے۔ یہ بھی مصنف کی اسی کتاب سے لی گئی ہیں:
۱… قدیم یقین کے زوال کی ابتداء شک اور تردد سے ہوتی ہے… اور اگر کوئی شخص اس خار شکستہ سے لذت خلش حاصل کرنے لگے اور شک ہی میں مبتلا رہنا چاہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی فطرت مسخ ہوچکی ہے۔ ایسا شخص اس مسلے میں علم کا سرمایہ کھو بیٹھتا ہے۔ نئے تصور کی کشتی ساحل پر لگنے نہیں پاتی اور قدیم تصور کی کشتی منجھدار میں ہچکولے کھانے لگتی ہے۔ ‘‘ (کتاب کا صفحہ۹۳)
۲… ’’ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ اگر آپ متقیانہ ماحول میں رہتے ہیں۔ تو آپ کو کسی شخص کے فاسق ہونے کا یقین بڑی مشکل سے آسکتا ہے… اس کے بالکل برعکس جو لوگ فاسقانہ ماحول میں رہتے ہیں۔ انہیں بسا اوقات کسی کے تقدس وتقویٰ کی خبر کا یقین نہیں آتا ،خواہ آپ کتنے ہی پرزور طریقہ سے بیان کریں۔‘‘ (ص۸۵)
۳… ’’شخصی مذاق کا عنوان قائم کرکے مصنف کہتے ہیں کہ کسی چیز کو قبول کرنے یا نہ کرنے میں انسان کی ذاتی پسند یا ذاتی مذاق کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ حالانکہ دونوں خبروں کا ذریعہ ایک ہی ہوتا ہے۔‘‘ ملخصا۔ (ص۴۳)
۴… ’’حدیث وسیرت کے اس عظیم الشان ذخیرہ پر نظر ڈالو جو رسول امی کے غلاموں نے جمع کردیا ہے۔ ایسی ہستی پر اعتماد نہ کرنا یقیناً فطرت سے کھلی ہوئی بغاوت ہے۔ انبیاء ومرسلین نے جو خبریں دی ہیں۔ وہ ان کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔‘‘ (ص۶۱)
یہ بھی لکھتے ہیں:
۵… ’’قابل اعتماد مخبر پر اعتماد نہ کرنا، ناقابل پر اعتماد کرلینا، یہ دونوں چیزیں بکثرت پائی جاتی ہیں اور دو نوں گمراہ کن ہوسکتے ہیں۔ ‘‘ (ص:۵۰)