۹… ’’حضرات ائمہ مجتہدین مثلاً امام ابو حنیفہؒ وغیرہ سے اس مسئلہ میں نفیاً یا اثباتاً ایک لفظ بھی منقول نہیں۔‘‘ (ص۵۵۳)
۱۰… ’’امام مالکؒ جیسا عالم دین اور امام وقت درس وافتاء کی خدمت میں مصروف نظر آتا ہے اور مؤطا امام مالک کی ایسی گراں قدر کتاب ملتی ہے۔ جو کتب حدیث میں وہ درجہ رکھتی ہے جو بخاری ومسلم کو بھی حاصل نہیں۔ اس کتاب میں امام مالکؒ ایک حدیث لائے ہیں۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے بیان فرمایا کہ آنحضرت ؐ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ اس لئے واقعہ کی صحت میں کلام نہیں ہوسکتا… بطور خرق عادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فلسطین سے آکر خانہ کعبہ کا طواف کیا ہوگا۔
یہ حدیث لکھنے کے باوجود امام مالکؒ نزول مسیح علیہ السلام کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے۔ اگر نزول مسیح کی ان روایات میں سے جو آج بڑے طمطراق کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں کسی رورایت کا کوئی وجود مسلم معاشرہ کے چھوٹے سے چھوٹے گوشہ میں بھی ہوتا۔ تو امام مالکؒ ’’الشیء بالشیء جزائ‘‘کے نفسیاتی اصول کے تحت اس روایت کو خواہ وہ حدیث ہوتی یا اثر، اس موقع پر ضرور ذکر فرماتے ۔‘‘ (ص۵۵۵،۵۵۶)
یہ حوالہ جات تو قارئین نے ملاحظہ فرمالئے۔ مگر ابھی نہ تو ہم کتاب کا حوالہ دے رہے ہیں۔ نہ اس کے مصنف کا نام لکھ رہے ہیں۔ تھوڑا سا انتظار اور فرمائیے۔ پہلے یہ سن لیں کہ ان صاحب کو دھوکہ لگا تو کیوں کر؟ یا یوں کہئے کہ ان کے خیالات میں انقلاب آیا کہ وہ امت مسلمہ کے متفق علیہ عقیدہ کے خلاف یوں لکھتے چلے گئے ہیں۔ تو اس کی وجہ کیا ہے؟
قارئین شاید ’’معتزلہ‘‘ کے حالات سے واقف نہ ہوں۔ یہ سب لوگ بدنیت یا بد عمل نہیں تھے۔ لیکن ان میں بنیادی خرابی یہ آگئی کہ وہ نقل کو عقل کے تابع کردیتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ’’عقل‘‘ اﷲ کی دی ہوئی ایک بے بدل نعمت ہے۔ جس طرح کہ سمع اور بصرہ۔ لیکن جس طرح کہ انسان دیکھنے کے لئے آنکھوں کے ساتھ روشنی کا محتاج ہے کہ سورج، چاند یا کہربائی قمقمے اور چراغ وغیرہ کے بغیر رات کی تاریکی میں آنکھ کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس طرح عقل بھی کتاب وسنت کی روشنی کی محتاج ہے۔ ان کی روشنی میں سوچ بچار سے انسانی عقل صحیح نتیجہ تک پہنچ سکے گی۔ اس کے بغیر وہ صحیح کام نہیں کر سکے گی۔ یہی خرابی معتزلہ قدیم میں تھی اور یہی فساد معتزلہ جدید میں ہے۔