۱… ’’بہت سے علماء اور محقق نزول مسیح علیہ السلام کی روایتوں کو موضوع اور جعلی قرار دیتے ہیں۔ آں محترم کے دوبارہ نزول کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن آنحضرت علیہ السلام کے رفع الی السماء کے قائل ہیں… راقم السطور کا بھی یہی اعتقاد ہے۔‘‘ (ص۴۶۶)
۲… ’’میں نے بھی عقیدہ نزول مسیح پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ عقیدہ نزول مسیح باطل ہے۔ ‘‘ (ص۵۰۴)
۳… ’’معتقدان نزول مسیح (بزمانۂ قرب قیامت) جن احادیث کو صحیح کہتے ہیں۔ وہ بھی موضوع اور جعلی ہیں۔ لیکن یہ حضرات ان کے ضعف کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ (ص۵۱۱)
۵… ’’نزول مسیح کے بارے میں جو روایتیں ہیں، در حقیقت امام بخاری اور امام مسلم بھی انہیں نقل کرنے کے الزام سے بری ہیں۔ یہ کس سبائی یا سبائیت نواز کے کرتوت ہیں، اس نے ان کا الحاق ان بزرگوں کی کتابوں میں کردیا۔ یہ روایتیں قرآن مجید کیخلاف ہیں۔‘‘ (ص۵۲۶)
۶… ’’گزشتہ صفحات میں یہ حقیقت الم نشرح کی جاچکی ہے کہ بزمانہ قرب قیامت نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ قطعاً بے بنیاد ہے۔ اس کے ثبوت میں پرکاہ اور تار عنکبوت جیسی کوئی بھی دلیل نہیں۔‘‘ (ص۵۵۴)
۷… ’’دور صحابہ سے نیچے اتر کے تابعین، تبع تابعین اور ان کے تابعین کے زمانہ پر نظر کیجئے۔ مسلم معاشرے میں کہیں بھی نزو ل مسیح کے عقیدے کا چرچا نہیں ملے گا۔ (ص۵۵۵)
۸… ’’اثناء عشریوں نے آسانی کے ساتھ یہ نام نہاد احادیث وآثار، جو قطعی طور پر موضوع، من گھڑت اور جعلی ہیں۔ اہلسنّت کی طرف منتقل کردیں اور وہ بھی خروج دجال اور نزول مسیح کے قائل ہوگئے۔ یہود تو ایسے موقع کے منتظر رہتے ہیں۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ان روایتوں میں ایسے مضامین داخل کردئیے۔ جن سے قرآن کی بعض آیات کی صداقت معاذ اﷲ! مشتبہ ہوجاتی ہے… نبی کریم کی عظمت میں معاذ اﷲ نقص اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنحضرتﷺ سے افضل اور برتر ہونا ثابت ہوتا ہے… نزول مسیح اور خروج دجال کی یہ نام نہاد احادیث وآثار سب کے سب موضوع اور من گھڑت ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور نبی کریم ﷺپر یہ افتراء کسی سبائی کارخانے کے کسی کمرے میں بیٹھ کر تیار کیا گیا ہے۔‘‘ (ص۵۶۱)
شاید قارئین ان حوالہ جات کو پڑھ کر اکتا گئے ہوں مگر ہم انہیں تکلیف دیں گے دو حوالے اور بھی پڑھ لیں: