ہمارے نزدیک پہلا شخص تو کفر بواح کا شکار تھا اور دوسرے صاحب (کم از کم راقم السطوران کے بارے میں یہی سمجھتا ہے کہ نوامع الصادقین کی راہ سے ہٹ کر چلنے سے وہ تسویل شیطان کا شکار ہوگئے۔ وجہ کچھ بھی ہو۔ بہر حال آپ گزشتہ اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ کتاب وسنت کی رو سے عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ مگر شیطان لعین نے (فکر آخرت سے غافل کرنے کے لئے) کچھ ایسے افراد ڈھونڈ لئے جو انشاء پردازی کا زور دکھاتے دکھاتے صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔
کہیں حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا واقعہ پڑھا تھا کہ وفات سے پہلے۔ ان پر غشی طاری تھی اور فرماتے تھے :’’لا بعد لا بعد‘‘ صاحبزادے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ حضرتؒ کو افاقہ ہوا تو صاحبزادہ (عبداﷲ) نے پوچھا: ابا جان! آپ یہ کیا فرما رہے تھے؟ فرمایا: بیٹے! شیطان میرے پاس آگیا تھا اور کہنے لگا: ’’احمد! تم میری گرفت سے بچ نکلے۔ میں نے جواباً کہا: ابھی نہیں! جب تک روح باہر نہیں آجاتی اندیشہ باقی ہے۔‘‘
قارئین محترم! اندازہ لگایا آپ نے؟ راقم السطور اقبال مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ ان کے ایک شعر میں ترمیم کرکے کہتا ہے:
شیطان بڑا عیار ہے
سو بھیس بدل لیتا ہے
اسی لئے تو قرآن وحدیث میں بار بار صلحاء واتقیاء کی جماعت کے ساتھ رہنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ قرآن کریم میں: ’’اتقو اﷲ‘‘ کے ساتھ ’’کونوا مع الصادقین‘‘ کا حکم آیا ہے۔ اور حدیث شریف میں آیا ہے: ’’ید اﷲ علی الجماعۃ ومن شذشذ فی النار!‘‘ (اجارنا اﷲ منہا) ’’اللّٰہم ثبت قلبی علی دینک واہدنی صراطا سویا!‘‘
ہم نے ابھی تک ثانی الذکر صاحب کا نام نہیں لیا۔ پہلے آپ ان کی تحریر کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔