پندار سعدی کہ راہ صفا
تواں رفت جز درپئے مصطفی ﷺ
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ’’انترک دین محمدﷺ لرجل طرار جاء نا؟‘‘
المختصر اس وقت ہمارے سامنے ایک تو وہ شخص ہے ۔ جس کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ نتائج سامنے آتے ہیں:
۱… وہ شخص دروغ گوئی میں ابو الحسین کذاب اور غرقوب کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
۲… بد زبانی اور فحش گوئی میں وہ جناب چرکین (جس کا دیوان مشہور ہے) کا استاد معلوم ہوتا ہے۔
۳… اس کے الہامات شیخ سعدیؒ سے لے کر امرؤالقیس جیسے شعراء جاہلیت تک کے کلام سے ماخوذ ہیں۔
۴… وہ علمائے امت سے لے کر حضرات صحابہؓ اور اہل بیتؓ تک کے حق میں زبان درازی سے نہیں چوکتا۔
۵… حضرات انبیاء علیہم السلام کے حق میں وہ زیادتیاں اور گستاخیاں کر گزرتا ہے کہ ۶… وہ قرآن پاک کے لئے نہایت غلیظ اور گھٹیا الفاظ استعمال کرتا ہے۔ العیاذ باﷲ
۷… وہ اﷲ رب العزت کے بارے میں کفریہ کلمات استعمال کرنے سے نہیں کتراتا۔ معاذ اﷲ
۸… اس کے کلام میں تضاد بیانی اس حد تک پائی جاتی ہے کہ وہ بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے منجانب اﷲ نہیں ہے اس کی ذاتی تراش خراش ہے۔ (ان الزامات کی تصدیق کے لئے ضمیمہ دیکھا جائے)
دوسرے صاحب وہ ہیں جو ایک عرصہ تک اہل السنت والجماعت کے ایک مقتدر عالم کی حیثیت سے دین کی خدمت انجام دیتے رہے۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اخیر میں جاکر انہیں کیا ہوگیا کہ وہ تدریجاً بدلتے چلے گئے اور شدہ شدہ وہ عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام کو غلط اور باطل قرار دینے لگے۔