نیم جان کو آب شفا تو کیا دیتا الٹا اس کے زخموں پر نمک پاشی کرنے لگا۔ اس نے تریاق القلوب (یہ مرزاقادیانی کی اس کتاب کا نام ہے جس کے ایک اقتباس پر پیش نظر کتاب ختم ہورہی ہے) کے نام سے قوم کو زہرہلاہل پلانا چاہا۔ اس نے آزادی کے مجاہدین کو قزاق، حرامی اور نمک حرام کے القاب سے نوازا۔ اﷲ کے برگزیدہ نبیوں اور مقرب بندوں کی خاطر گالیوں سے کی۔ امت مسلمہ کے ہاتھوں کو محمد عربی(ﷺ) کے دامن سے الگ کرنے کی کوشش کی۔ جہاد کو حرام قرار دے کر آقائے مدنیﷺ کے غلاموں کو انگریز کے قدموں میں ڈال دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ مسیح موعود، مہدی اور مجدد کا چکر دے کر دیکھتے دیکھتے انگریز کی سرپرستی میں وہ فرد ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔
قادیانی تحریک کے نتائج وثمرات معلوم کرنا چاہیں تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اس کے بانی کا شباب غربت اور افلاس سے گذرا۔ لیکن وہ دنیا سے رخصت ہوا تو اس کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ لنگر خانے کے نام پر آمد وخرچ کی مدات قائم تھیں۔ منارۃ المسیح اور بہشتی مقبرہ کے ناموں پر ہن برس رہا تھا اور اس کے پسماندگان زروسیم سے کھیل رہے تھے۔
قصہ مختصر مرزاغلام احمد قادیانی گوشہ گمنامی سے نکل کر ایک مکتب خیال کے بانی کی حیثیت سے منصہ شہود پر آئے۔ مجرے چڑھانے والوں اور ان کے آستانہ پر سرنیاز جھکانے والوں کی ایک کھیپ انہیں میسر آگئی اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ کیونکہ ہر پکارنے والے کو انسانی گلہ میں سے کچھ بھیڑیں مل جاتی رہی ہیں۔ لیکن جہاں تک مذہبی نقطہ نظر کا تعلق ہے۔ تمام مسلمان علمائ، (خواہ وہ حنفی ہوں خواہ اہل حدیث، بریلوی ہوں یا دیوبندی، شیعہ ہوں یا سنی) نے بالاتفاق مرزاقادیانی کی دعوت کا بائیکاٹ کیا اور نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ اسے دور حاضر کا سب سے بڑا مذہبی فتنہ قرار دیا اور امکانی حد تک ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا۔
حافظ العصر، حجۃ الاسلام، حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ کے بارے میں پڑھا بھی ہے اور سنا بھی کہ اخیر عمر میں آپ کو فتنہ مرزائیت کے بارے میں بڑی فکر رہتی تھی۔ آپ ہی کے توجہ دلانے پر علامہ اقبالؒ کو بھی اس فتنہ کے مقابلہ اور استیصال کی فکر لاحق ہوئی۔
حضرت شاہ صاحبؒ بہاولپور کے مشہور مقدمہ مرزائیت ۱۹۳۱ئ،۱۹۳۲ء کے سلسلہ میں یہاں تشریف لائے۔ بیس روز قیام فرمایا۔ ڈیرہ نواب صاحب بھی تشریف لائے اور پھر یہیں سے حضرت بذریعہ گاڑی دیوبند تشریف لے گئے۔ اسٹیشن ڈیرہ نواب صاحب کے ویٹنگ روم میں حضرت مولانا غلام محمد گھوٹویؒ (شیخ الجامعہ) نے آپ کی خدمت میں سفر خرچ پیش کیا تو آپ نے