M
سخنہائے گفتنی
ادیب شہیر جناب عبدالقدوس انصاری
اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط میں برصغیر پاک وہند کے مسلمان فرمانرواؤں میں سے سراج الدولہ اور اس کے وفادار سپاہی پلاسی کے میدان میں جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ اسی صدی کے اخیر میں ’’ہماری ترکش کا آخری تیر‘‘ غازی سلطان ٹیپو، انگریز کی چال بازیوں کے نتیجہ میں اپنوں کی بے وفائی کا شکار ہوکر خاک وخون کی نذر ہوتا ہے۔ انیسویں صدی کا آغاز ہوتا ہے تو سفید فام انگریز، شاہجہان اور عالمگیر کے جانشین کی پنشن مقرر کر کے عروس البلاد دہلی کی سلطنت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اس دوران میں پنجاب کے سکھ خون مسلم سے ہولی کھیلنا شروع کر تے ہیں۔ شاہ ولی اﷲؒ اور شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کے جانشین سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسماعیل دہلویؒ آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بالا کوٹ کی سرزمین ان کے خون کی پیاسی تھی۔ کاغان کی وادی فرزندان اسلام کے خون سے لالہ زار بن جاتی ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے وہیں زیرزمین محو خواب ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ۱۸۵۷ء کا معرکۂ آزادی وقوع میں آتا ہے۔ جس نے رہی سہی کسر نکال دی۔ آزادی کے پروانے کچھ تو میدان کارزار میں کھیت رہے۔ بچے کھچے تو پھانسی کے تختہ پر پہنچے یا کالے پانی کے جیل خانہ میں برصغیر کے شہنشاہ بوڑھے بہادر شاہ ظفر کو جلاوطن ہوکر ایام پیری رنگون کے زندان میں گزارنے پڑے اور لال قلعہ پر برطانیہ کا ترنگا پرچم لہرانے لگا۔
اس طرح پر ایک صدی کا یہ عرصہ اپنی سختیوں اور ہولناکیوں کے لحاظ سے اسلامیان ہند کے لئے قیامت سے کم نہ تھا۔ سیلاب حوادث اپنے اثرات چھوڑ کر گزرگیا۔ ان روح فرسا اور دلگداز واقعات کے بعد امت مسلمہ کسی ایسے مسیحا کی منتظر تھی جو اس کے لئے پیام شفاء لاتا جو اس کے زخموں کی مرہم اور دردوں کی دوا مہیا کرتا۔ ایک طرف قوم مسلم کی یہ زبوں حالی اور درماندگی اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ قادیان تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں غلام احمد کے نام سے ایک آدمی اٹھتا ہے۔ اس کے خاندان کی سب سے بڑی منقبت یہ ہے کہ وہ جہاد آزادی میں انگریز کا خدمت گزار رہا۔ ۱۸۵۷ء میں بقول مرزاقادیانی اس کے ابا نے پچاس گھوڑوں اور سواروں سے انگریز بہادر کی خدمت کی۔ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۳۹)
وہ شخص خود عمر بھر انگریز کا ثناخواں اور دعاگو رہا۔ اس کی غلامی پر سدا فخر کرتا رہا۔ وہ کشتہ