ارشاد فرمایا: ’’مولانا! میری عمر پڑھنے پڑھانے میں گزری ہے۔ لیکن میں نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ درس تدریس کا عمل اﷲ کے ہاں کس حد تک شرف قبولیت حاصل کر سکا۔ نہ معلوم اس میں کتنا ریائ۱؎ شامل ہوتا تھا اور کتنا حصہ حصول زر (یعنی تنخواہ) کی نیت لے لیتی تھی۔ جب آپ کا خط میرے پاس پہنچا تھا تو اگرچہ میں سخت بیمار تھا۔ تاہم یہ سوچ کر چل پڑا کہ بہاولپور کی عدالت میں محمد مصطفیٰﷺ کی طرف سے وکیل بن کر پیش ہوں گا تاکہ حضور اقدسﷺ کے تاج ختم نبوت چھیننے والوں کا مقابلہ کر سکوں۔ اﷲ نے مجھے اس نیک کام کی توفیق بخشی۔ اب میں چاہتا ہوں کہ میرا یہ عمل خالصتاً اﷲ کی رضا کے لئے ہو،تا کہ آخرت کے لئے زادراہ بن سکے۔ مجھے ہدیہ قبول کرنے سے معذور سمجھیں۔‘‘
ان رقت انگیز کلمات سے حضرت نے ہدیہ قبول کرنے سے معذرت فرمادی۔ حاضرین پر ایک قسم کی وجد کی کیفیت طاری ہوگئی۔ خدام اور معتقدمین کو اشکبار چھوڑ کر حضرت راہی سفر ہوگئے۔
۲… حضرت شاہ صاحبؒ نے آخری ایام زندگی میں ’’خاتم النبیین‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں ایک کتاب خصوصیت کے ساتھ کشمیری مسلمانوں کے لئے تصنیف فرمائی۔ یہ کتاب بعد میں مجلس علمی ڈابھیل نے طبع کرائی تھی۔ اس کے مقدمہ میں مفتی عتیق الرحمن صاحب لکھتے ہیں۔
حضرت نے انتہائی ضعف کے باوجود کاتب صاحب کے سامنے جو رقت آفریں اور دردانگیز کلمات فرمائے ان میں ایک جملہ یہ بھی تھا: ’’مولوی صاحب! اس وقت زندگی کے آخری منازل سے گذر رہا ہوں۔ میرے پاس آخرت کا کوئی ذخیرہ نہیں ۔ یہ دوچار تحریریں ہیں جو میرے لئے سامان آخرت ہیں۔‘‘
۳… حضرت شاہ صاحبؒ، حدیث شفاعت کبریٰ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب انسان میدان حشر کی سختیوں کی تاب نہ لاکر سخت پریشان ہوں گے اور باری باری اولوالعزم انبیاء علیہم السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر ہر ایک سے بارگاہ ذوالجلال میں شفاعت کی درخواست کریں گے تو ہر رسول کو اس کی صفت مختصہ کا واسطہ دیں گے۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’خلیل اﷲ‘‘ ہونے کا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’کلیم اﷲ‘‘ ہونے کا، اس طرح جب وہ پھر پھرا کر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو حضورﷺ کو ’’خاتم النبیین‘‘
۱؎ یہ الفاظ حضرت نے ازراہ توضع ارشاد فرمائے تھے۔ ورنہ تو اﷲ والوں کا ہر عمل اﷲ کی رضا کے لئے ہوتا ہے۔