علامہ عبدالوہاب شعرانیؒ اپنی مشہور کتاب (الیواقیت والجواہر ج۲ ص۱۴۲) میں مبحث نمبر ۶۵ کا عنوان قائم کرتے ہیں: ’’ان جمیع اشراط الساعۃ التی اخبرنا بہا الشارع حق لا بد ان تقع کلہا قبل قیام الساعۃ‘‘ {قیامت کی تمام وہ علامات، جن کی شارع نے خبر دی ہے‘ برحق اور قیامت سے پہلے واقع ہوکر رہیں گی۔}
پھر مبحث کا آغاز کرتے ہوئے ظہور مہدی، خروج دجال، نزول عیسیٰ علیہ السلام، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ گنوائے ہیں۔ ا سکے بعد ہر ایک کی تفصیل دی ہے۔ چنانچہ نزول سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے: ’’اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی قرآن سے کیا دلیل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کے نزول کی دلیل، اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وان من اہل الکتٰب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ یعنی جب آپ علیہ السلام نازل ہوں گے اور لوگ آپ پر اتفاق کرلیں گے تو اس وقت اہل کتاب کا ہر فرد آپ پر ایمان لے آئے گا… (اس کے علاوہ) اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ ایک قرأت میں علم (عین اور لام کی زبر کے ساتھ) پڑھا گیا ہے: ’’انہ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے۔ کیونکہ اس سے پیچھے آچکا ہے: ’’ولما ضرب ابن مریم مثلا‘‘ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کی نشانی ہے اور حدیث شریف میں دجال کے قصہ میں آیا ہے کہ لوگ نماز میں ہوں گے۔ تو اﷲ تعالیٰ حضرت مسیح بن مریم کو بھیجیں گے۔ وہ دمشق سے مشرقی جانب سفید منارہ
۱؎ کتابت میں کتاب کی غلطیاں ہیں، اس جگہ لفظ ہے: ’’بین یدیہ مہروذتان‘‘ آگے یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ اس لفظ کو دال مہملہ یا ذال معجمہ کے ساتھ دونوں طرح پڑھا جاسکتا ہے۔ کتب حدیث میں ’’بین مہروذتین‘‘ آیا ہے۔ دیکھئے ترمذی شریف۔ کہیں ’’بین ممصرتین‘‘ بھی آیا ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ یعنی آپ ہلکے زرد رنگ کے جوڑے میں ملبوس ہوں گے۔