بالخصوص برصغیر پاک وہند کے مسلمان تو اکابر مشائخ سلسلہ چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، سہروردیہ کے بار احسان سے کبھی بھی سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ جہاں محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری جیسے فاتحین، شمس الدین التمش اور عالمگیر جیسے سلاطین کے اس علاقہ کے کلمہ گو مسلمانوں پر گراں بہا احسانات ہیں۔ وہاں ان حضرات کے کارنامے بھی کچھ کم قابل قدر نہیں ہیں کہ انہی حضرات کی بدولت یہاں کے لوگوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ آیا۔ اﷲ تعالیٰ ان سب پر رحمتیں نازل فرمائے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکابر صوفیاء کرامؒ کی طرف کتابوں میں کچھ ایسی باتیں منسوب کردی گئیں۔ جو دین اسلام سے میل نہیں کھاتیں۔ بلکہ اعداء اسلام کو من مانی کرنے کا موقع مل گیا۔ اس لئے تو ہمارے بزرگوں نے فرمایا تھا۔
’’الاسناد من الدین، لو لا الاسناد لقال من شاء ماشائ‘‘(خطبہ صحیح مسلم) ترجمہ : ’’سند بھی دین کا ایک حصہ ہے۔ اگر سند کی پابندی نہ ہوتی۔ تو پھر جو جس کے جی میں آتا کہہ دیتا۔‘‘
یہ ایک طویل داستان ہے۔ ہم طلبہ کو مشورہ دیں کہ وہ اس سلسلہ میں علامہ عبدالوہاب شعرانیؒ کی کتاب الیواقیت والجواہر کے ابتدائی صفحات پڑھ کر دیکھیں۔ آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ مولانا احمد رضا خاں کا رسالہ ’’ مقال العرفائ‘‘ بھی قابل دید ہے۔ موصوف ایک اور رسالہ میں چند کتابوں کے نام لے کر لکھتے ہیں۔
’’اولاً اس کا ثبوت درکار ہے کہ یہ کتابیں حضرات منسوب الیہم ؓ کی ہیں۔ بہت کتابیں محض جھوٹ نسبت کرکے چھاپ دی ہیں۔ ثانیاً یہ کتب غریبہ ہیں اور کتب غریبہ پر اعتماد جائز نہیں۔ علامہ سید احمد حموی غمزالعیون والبصائر، شرح الاشباہ والنظائر میں محقق بحر، صاحب بحرالرائق سے ناقل۔ ’’لا یجوز النقل من الکتب الغریبۃ التی لم تشتہر‘‘
(الزبدۃ الزکیہ مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہور)
وطن عزیز میں ایک شرذمہ قلیلہ ایسا بھی آباد ہے جو بات بات پر (چاہے بات بنے یا نہ بنے) حضرات صوفیا کرامؒ کے حوالے پیش کردیتا ہے۔ دوسرے مسائل تو اس وقت پیش نظر نہیں ہیں۔ عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام پر ایک حوالہ پڑھ لیجئے۔