ہم لوگوں کی غفلت شعاری کا یہ عالم ہے کہ ہم کبھی اخبارات میں سورج گرہن یا چاند گرہن کی پیشگی کی اطلاع پڑھ لیتے ہیں تو ہم اسے ایک طبعی واقعہ (Physical Event) تصور کرکے بڑے پریم سے اپنی روز مرہ زندگی میں مگن رہتے ہیں۔ نہ اﷲ کے در پر جانے کی کوئی ضرورت سمجھتے ہیں۔ نہ توبہ واستغفار۔ نہ صدقہ وخیرات کی۔ حالانہ غور کیجئے کہ صلوٰۃ الکسوف کی روایات امام ترمذیؒ کے مطابق تقریباً بیس صحابہ کرامؓ سے منقول ہے۔ ان کے نام تو سنئے۔
خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیؓ، سیدہ عائشہ صدیقہؓ، سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ، سید القراء حضرت ابی بن کعبؓ، سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ، سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ، سیدنا ابو بکرؓ، سیدنا جابر بن عبداﷲ انصاریؓ، سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ، سیدنا سمرہ بن جندبؓ، سیدنا عبدالرحمن بن سمرہؓ، سیدنا نعمان بن بشیرؓ، سیدنا قبیصۃ الہلالیؓ، سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ، فہل من مدکر؟
یہاں پر ایک بات اور بھی وضاحت طلب ہے۔ وہ یہ کہ دجال کا کانا ہونا تو کم وبیش ایک درجن حضرات صحابہ کرامؓ سے منقول ہے۔ ان میں سے بعض حضرات نے صرف کانا ہونا بیان کیا ہے۔ بعض نے آگے تفصیل دی ہے کہ کس آنکھ سے کانا ہوگا؟ کچھ روایات میں دائیں آنکھ کا لفظ آیا ہے۔ اور کچھ میں بائیں کا۔ مگر دونوں کی کیفیت مختلف ہے۔ روایات کو ملانے سے پتہ چلتا ہے کہ بائیں آنکھ تو اس کی مٹی ہوئی ہوگی اور دائیں آنکھ بھی عیب دار ہوگی۔ وہ انگور کے چھوٹے دانے کی طرح ابھری ہوئی ہوگی
سیدنا ثوبانؓ رسول اﷲﷺ کے آز اد کردہ غلام تھے۔ در اصل غلام نہیں تھے۔ یمن کے رہنے والے تھے۔ کہیں اٹھائی گیروں کنے انہیں اچک لیا تھا۔ اور غلام بنا کر فروخت کردیا۔ بعد میں رسول اﷲﷺ نے انہیں خرید کر آزاد فرما دیا۔ عشق رسول مقبولﷺ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی طرف سے انہیں جنتی ہونے کی بشارت کا صلہ بھی ملا تھا۔ راقم کی کتاب ’’کاروان جنت‘‘ میں ان کا ذکر موجود ہے۔
یہ حضرت ثوبانؓ ایک جماعت کے بارے میں بشارت عظمیٰ سناتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے: