ہوگی جس طرح کہ فلاں آدمی کی ہے۔ (بات کی وضاحت کے لئے آپؐ نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا جو آپؐ کے اور حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۴؎) جب وہ نکلے گا تو دعویٰ کرے گا کہ وہ خدا ہے۔ جو اس پر ایمان لائے گا تو اس کا پہلے کا نیک عمل اسے کوئی فائدہ نہ دے گا اور جو اس کی تکذیب کرے گا تو پہلے کا کوئی گناہ اسے نقصان نہ دے گا۔ پھر وہ زمین پر چھا جائے گا۔ اتنے میں حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے… اور اس سے پہلے تم اور بھی کئی چیزیں بڑی اہم دیکھو گے۔ تم آپس میں ایک دوسرے سے پوچھو گے۔ کیا نبی پاکؐ نے اس بارے میں کچھ ارشاد فرمایا تھا؟ پھر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور پھر قیامت قائم ہو جائے گی۔
حضرت ثعلبہؒ کہتے ہیں: میں دوسرے خطبہ میں پھر پہنچا، حضرت سمرہؓ نے پھر یہی خطبہ دیا۔ ایک لفظ آگے پیچھے نہیں ہوا۔ مستدرک حاکم میں یہ دونوں قصے خروج دجال اور نزول سیدنا مسیح علیہ السلام یکجا بیان ہیں۔ مسند احمد میں دونوں باتوں کا ذکر الگ الگ ہے۔ (مسند احمد غیر مبوب ج۵ ص۱۳،۱۶، مسند احمد مبوب ج۶ ص۱۸۹ تا۱۹۲، حدیث ۱۶۹۰، ج۲۴، ص۸۲، حدیث۲۱۹)
آمدیم برسر مطلب۔ تو بات یہ ہورہی تھی کہ رسول مقبولﷺ کی عمر کے آخری حصہ میں سورج گرہن کا واقعہ پیش آیا۔ جس پر آپؐ نے صلوٰۃ کسوف پڑھائی اور ایک گراں قدر خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں پہلے تو ایک غلط خیال کی تردید فرمائی۔ پھر توبہ اور استغفار کے ساتھ صدقات وخیرات کی تلقین فرمائی۔ اور اس کے بعد خروج دجال اور نزول سیدنا مسیح علیہ السلام کے متعلق پیشین گوئی فرمائی۔ چونکہ یہ دونوں واقعے قیامت کے لئے تمہید کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسوف شمس، آج کے سائنسدانوں اور ماہرین جغرافیہ کے بتائے ہوئے نظام شمسی کے معطل ہوجانے (Upset) کی علامت ہے۔ جسے قرآن پاک نے ’’اذا الشمس کورت‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور حدیث شریف میں ’’طلوع الشمس من المغرب‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اس مناسبت سے آنحضرتﷺ نے قیامت کی ان دو اہم نشانیوں کا ذکر فرما دیا ۔
۴؎ اس تمثیل سے مقصود اس صحابی کی تنقیص ہرگز نہ تھی۔ ممسوح العین ہونے کی وضاحت کے لئے اگر آقاؐ نے ایک غلام کی طرف اشارہ فرما دیا تو کیا خیال ہے۔ سادہ مزاج غلام نے اس کو محسوس کیا ہوگا؟ ہر گز نہیں!