دوسری رکعت میں بھی آپ نے ایسا ہی کیا۔ آپ تشہد کے لئے بیٹھے تو سورج کھل چکا تھا۔ سلام پھیر کر آپؐ نے اﷲ کی حمدوثناء اور اپنی نبوت کا ذکر فرما کر ارشاد فرمایا۔
’’لوگو! میں تمہیں اﷲ کا واسطہ دیتا ہوں (سید الاولین والآخرینﷺ کے احساس فرض کا اندازہ کیجئے! ساتھ ہی مشکوٰۃ شریف ص۴۳۶ باب الامر بالمعروف میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی روایت بھی پڑھ لیجئے) اگر میں نے اﷲ کا پیغام پہنچانے میں کوئی کوتاہی کی ہو تو تم مجھے بتا دو تاکہ میں اﷲ کا پیغام۔ جس طرح کہ چاہئے۔ پہنچا دوں اور اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں نے اپنے رب کا پیغام پہنچادیا ہے۔ تو بھی تم مجھے بتادو۔ کچھ لوگ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا: حضور! آپؐ نے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے آپ نے امت کے ساتھ خیر خواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپؐ نے اپنا فرض ادا فرما دیا ہے پھر وہ چپ ہوگئے۔
تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اما بعد! کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سورج گرہن یا چاند گرہن اور ستاروں کا اپنے اپنے مقام سے ہٹ جانا۔ زمین پر بڑے آدمیوں کے مرجانے کی وجہ سے پیش آتا ہے۱؎۔ مگر یہ جھوٹ ہے۔ درحقیقت یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ بندوں میں سے کون کون گناہوں سے باز آجاتے ہیں؟اﷲ کی قسم! جب سے میں یہاں کھڑا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ تمہیں دنیا وآخرت میں کیا پیش آنے ولا ہے۲؎ اور اﷲ کی قسم! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تیس کذاب نہ نکل آئیں۔ جن میں سے آخری کانا دجال ہوگا۳؎ جس کی بائیں آنکھ یوں مٹی ہوئی
۱؎ اس روز کچھ لوگوں نے صاحبزادہ حضرت ابراہیم کی وفات کو گہن کا سبب بتایا۔
۲؎ بخاری ومسلم اور دیگر کتب حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ رسول اکرمﷺ ایک مرتبہ آگے بڑھے تھے اور ایک مرتبہ پیچھے ہٹے تھے۔ صحابہؓ کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا کہ: اسی وقت مجھے جنت بھی دکھائی گئی اور دو زخ بھی۔ طلبہ یہاں بھی یاد رکھیں کہ آقاؐ یوں نہیں فرماتے کہ میں نے جنت اور نار دیکھ لی۔ احادیث میں کہیں اریت کا لفظ آتا ہے۔ کہیں ’’عرضت علی ‘‘ کہیں ’’جی ء بالجنۃ‘‘ اور ’’جی ء بالنار‘‘پھر یہ کہ صحابہ کرامؓ کا ایمان بالغیب قوی تھا۔ وہ تو سنتے ہی مان گئے۔ آج کا مادہ پرست TV, Materialist ہی سے سبق لے لے۔
۳؎ بعض روایات کے مطابق دجال کے دعوئوں کا آغاز نبوت سے ہوگا اور پھر ترقی کرکے دعوائے الوہیت پر اتر آئے گا۔