٭… انہوں نے ہندوستان میں نہیں آنا، بلکہ یہودیوں کی سرزمین کے قریب، دمشق کے مشرقی جانب اتریں گے۔
٭… ان کی آمد کے بعد کوئی منارہ نہیں بنے گا۔ منارہ پہلے سے موجود ہوگا۔ جس پر نزول فرمائیں گے۔
٭… ان کی آمد سے یہودیت اور نصرانیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ دین اسلام کا بول بالا ہوگا۔
٭… کرۂ ارض امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ حتیٰ کہ زہریلے جانور درندے تک انسان دشمنی سے باز آجائیں گے۔ مال کی فروانی ہوگی لوٹ کھسوٹ کا دور ختم ہوجائے گا۔
٭… آنے والے مسیح علیہ السلام، سید الانبیائﷺ کے روضۂ اقدس پر حاضر ہوکر سلام عرض کریں گے۔ یوں دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ آقائے دو جہاں ﷺ نبی الانبیاء بھی ہیں۔
٭… آپ بیت اﷲ شریف کا حج کریں گے۔ یوں اسرائیلی نبی ، ابراہیمی قبلہ پر حاضر ہوں گے تاکہ بنی اسرائیل اور بنو اسماعیل سب ایک ہوجائیں گے۔
٭… آنے والے مسیح علیہ السلام ازدواجی زندگی اختیار کریں گے۔ جبکہ ان کی سابقہ زندگی میں اس کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ شادی کے بعد آپ کی اولاد بھی ہوگی۔
٭… آپ کی وفات ہوگی اور آپ سید الانبیائﷺ کے روضہ اقدس میں دفن ہوں گے اور قیامت کے روز دونوں حضرات، شیخین۱؎ یعنی جناب ابو بکرؓ اور جناب عمرؓ کے درمیان اٹھیں گے۔ یوں قرآن پاک اور ذخیرہ حدیث میں آئی ہوئی پیشین گوئیوں کی تکمیل ہوگی۔
کیا اب بھی اور کسی کے لئے گنجائش رہ جاتی ہے کہ ناحق (Unduly) مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے؟ اور اگر کو ئی دعویٰ کرے تو بدرستی ہوش وحواس، اس کو درست تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
سورج گرہن کے موقع پر آنحضرت ﷺ کا ایک جامع خطبہ
۱۷…حدیث سمرہ بن جندبؓ
حضرت سمرہ بن جندبؓ رسول اکرمﷺ کا ایک اہم خطبہ نقل کرتے ہیں: حضرت سمرہ
۱؎ شیخین کا لفظ اگر حضرات صحابہ کی جماعت کے لئے آئے تو حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ مراد ہوتے ہیں۔ اگر فقہ حنفی میں یہ لفظ آئے تو حضرت امام ابو حنیفہؓ اورامام ابو یوسفؒ مراد ہوں گے۔ محدثین کی جماعت میں کسی کے لئے بولا جائے تو حضرت امام بخاری اور امام مسلمؒ۔