زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہ تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱)
مرزاقادیانی کے اس دوٹوک بیان کے بعد مرزائی حضرات کو وفات مسیح پر بحث کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ بلکہ مرزاقادیانی کو ختم نبوت کا انکار جہاد وغیرہ کا انکار، انبیاء وصلحاء کی توہین اور مسلمانوں کو گالیاں دینے کی وجہ سے بآسانی ناک آؤٹ کیا جاسکتا ہے۔
مثلاً (دافع البلاء ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰) پر مسیح علیہ السلام کو قرآن کی رو سے فحاش لکھ رہے ہیں۔
(ایک غلطی کا ازالہ ص۹،۱۰ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۲۱۳) پر حضرت فاطمہؓ کی توہین کر رہے ہیں۔
(نجم الہدیٰ ص۵۳، خزائن ج۱۴ ص۵۳) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہمارے مخالف جنگلوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں۔‘‘
(انوار الاسلام ص۳۰، خزائن ج۹ ص۳۱) پر لکھتے ہیں کہ: ’’جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اسے حرامزادہ بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
آج کے مرزائی بھی مرزاقادیانی کی ان لغویات سے دلی طور پر بے زار ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش مرزاقادیانی نے یہ مصیبت کھڑی نہ کی ہوتی تو ہماری دوکانداری خوب چلتی۔استدعا
آخر میں میری درخواست ہے کہ اس پرچے کو پڑھ کر اس کے جواب اگر آپ قادیانیوں سے مانگتے ہیں اور اس کی تشریح کراتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ مرزائیوں کے دئیے ہوئے جوابات کو واپس میرے پاس لائیں۔
ورنہ میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ آپ اپنی کم علمی کے باعث ان کے چکر میں پھنس جائیں گے اور آج کے دور میں اکثر لوگوں سے یہی حادثہ پیش آرہا ہے کہ وہ: (۱)قادیانی دلائل اور (۲)اپنی عقل دونوں کو فیصلہ کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں۔
ارے خدا کے بندو! ایک مسلمان عالم دین جو اس موضوع پر مہارت رکھتا ہو اور دوسرا قادیانی ہوتو ان کی گفتگو آپ سنیں اور پھر فیصلہ کریں۔ تاکہ چوٹ برابر کی ہو۔ ہدایت پھر بھی ہاوی کے ہاتھ ہے۔
’’وما علینا الا البلاغ المبین‘‘
’’وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین‘‘