ہیں اور برابر ہمیں چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔ باوجود اس کے ہمیشہ مسلمان خاموش ہی رہتے۔ چونکہ اس طرح ایک عرصہ گذر گیا۔ اس لئے مرزائیوں کو اطمینان ہوگیا کہ اس مقام پر نہ تو کوئی مسلم عالم اور نہ ہی مسلم عوام میں سے کوئی ہمارے سوال کا جواب دے سکتا ہے۔ اس طرح میدان کو ہموار پاکر انہوں نے ہر ہفتہ پرچار کا پروگرام بنایا۔ زنانہ پرچارک بھی تیار کئے، جو گھر گھر جاکر بھی غلط عقائد بیان کرتیں۔ سال گذشتہ عید میلاد کے موقعہ پر ہمارے یہاں مسجد چوک میں مولوی عبدالواحد صاحب رحمانی کا وعظ ہوا انہوں نے دوران میں مرزائیوں کے بارے میں کچھ جملے کہے اور ان مسائل پر بھی روشنی ڈالی جو ہمارے اور مرزائیوں کے بیچ اختلافی ہیں۔ جب کبھی ہمارا وعظ ہوتا۔ مرزائی جماعت کے لوگ ضرور شریک ہوتے اور ان مسائل پر اگر ہمارے مولوی صاحبان روشنی ڈالتے تو فوری غضبناک ہوتے۔ لیکن جب مولوی عبدالواحد صاحب رحمانی کا وعظ ختم ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ ان مسائل پر کافی روشنی ڈال چکے ہیں۔ اب اس کا ازالہ صرف مناظرہ سے کرنا چاہئے۔ چنانچہ دوسرے ہی دن انہوں نے بازار میں اپنی دوکان پر ایک بورڈ آویزاں کیا کہ اہل سنت والجماعت نے ہمیں مناظرہ کا چیلنج دیا ہے۔ لہٰذا ہم ان سے مناظرہ کریں گے۔ چنانچہ اسی دن مسجد کے متولی کے نام ایک مراسلہ بھی روانہ کیا۔ متولی صاحب نے اس کا جواب دینے کے لئے بستی کے چند سمجھدار معززین کو بلایا۔ ہم لوگوں نے انہیں جواب دیا کہ مولوی صاحبان اپنے عقائد کے لحاظ سے وعظ کرتے ہیں۔ اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ آپ کے عقائد آپ کے پاس ہیں اور ہمارے عقائد ہمارے پاس۔ ہم آپ سے کوئی مناظرہ کرنا نہیں چاہتے۔ اس لئے کہ آپ کے اور ہماری جماعت کے درمیان اس سے قبل کئی مناظرے ہوچکے ہیں۔ مگر پھر بھی اسے تسلیم کرنے کو آپ لوگ تیار نہیں ہوئے۔ یہی حال یہاں بھی ہوگا۔ اس لئے ہم مناظرہ کرنا نہیں چاہتے۔ براہ کرم اس سلسلہ میں مراسلت کو ختم فرمادیں تو مناسب ہے۔ مگر مرزائی جماعت نے ہمارے اس جواب کو کمزوری پر محمول کرتے ہوئے کہ اہل سنت والجماعت میں نہ اتحاد ہوسکتا ہے اور نہ کوئی مالی طاقت ہے۔ اپنی سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے یہی موقعہ ٹھیک سمجھ کر ہمیں جواب دیا کہ اگر آپ مناظرہ کے لئے آمادہ نہیں ہیں تو ہم آپ کی کھلی شکست کا اعلان کر دیں گے۔ اس پر مسلمانان یادگیر میں ایک ہیجان برپا ہوا، اور چند سنجیدہ احباب نے یہ طے کر لیا کہ چاہے کچھ ہی مشکلات ہوں مناظرہ کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ ورنہ ہمارے لئے یہ رسواکن بات ہوگی۔ اﷲ اور اﷲ کے رسول پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم نے مناظرہ کے لئے آمادہ ہوکر اس کی