آپؐ کے بعد آنے والی نبوت پر ایمان لانے اور اس کی اتباع کا بھی حکم اس کے ساتھ ضرور دے دیا جاتا۔ لیکن آیت واضح کرتی ہے کہ اس نبی کی اتباع کے بعد کسی اور نبی کی اتباع کرنا اور اس کے بعد کسی کتاب اور کسی شریعت کا انتظار کرنا یا اس کی طرف توجہ کرنا۔ ہدایت کا نہیں بلکہ صریح گمراہی کا سبب ہے۔ ہدایت دائر ہے صرف اس آخری کتاب اور آخری رسول کی اتباع میں ’’فماذا بعد الحق الا ضلال‘‘ اور اس حق کے بعد گمراہی ہی ہے۔
۴… ’’اطیعوا اﷲ وأطیوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیٔ فردوہ الیٰ اﷲ والرسول (نسائ:۸)‘‘ {اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے صاحب امر کی بھی۔ کسی اختلاف ونزاع کی صورت میں بھی کتاب اﷲ اور آخری رسول کی طرف رجوع کرو۔}
اس آیت میں اﷲاور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں میں سے جو صاحب امرواقتدار ہوں۔ ان کی اطاعت کا حکم دیاگیا ہے۔ اگر اسلام کی بعثت کا سلسلہ جاری ہوتا تو پھر الرسول کے بعد الوالامر (اسلام کے نظام خلافت) کی اطاعت کا حکم نہ دیا جاتا۔ بلکہ یوں مذکور ہوتا کہ اس رسول کے بعد آئندہ جو نبی آئیں ان کی اطاعت بھی کرنا۔
اس آیت میں آپﷺ کی رسالت کے بعد خلافت اسلامیہ کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن کسی نئی نبوت کا کوئی شائبہ تک معلوم نہیں ہوتا۔ اس آیت کی تفسیر آنحضورﷺ کی ان احادیث میں بھی ملتی ہے جن میں آپﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد خلافت جاری رہے گی۔ نبوت کا سلسلہ مجھ پر ختم ہوگیا۔ اس کے ساتھ قیامت تک کے لوگوں کو اپنے تمام نزاعات واختلافات کے بارے میں خدا اور رسول کی طرف رجوع کا حکم دیاگیا ہے اور ظاہر ہے کہ الرسول سے مراد یہی خاتم النبیین ہیں۔ اگر مزید انبیاء کی بعثت ہوتی تو ان کی نشان دہی ضرور کی جاتی۔ لیکن الرسول کی رسالت اس قدر ہمہ گیر اور کامل ہے کہ آپﷺ کے بعد قیامت کے زمانہ تک حاوی ہے اور ہمیشہ زندہ وتابندہ رہے گی۔ لہٰذا کسی نئی رسالت کے پھوٹ نکلنے کی کوئی امید نہیں ہے۔
۵… ’’لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ (احزاب:۳)‘‘ {تمہارے لئے اﷲکے رسول کی طرف زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔}
اس آیت میں لکم سے مراد قیامت تک کی تمام نوع انسانی ہے۔ جس رسول کی