اوّل…
یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے ہو کہ اس میں پہلے کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
دوم…
یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گذرے ہوئے نبی کی تعلیم بھلا دی گئی ہو یا اس میں تحریف ہوگئی ہو اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔
سوم…
یہ کہ پہلے گذرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم وہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لئے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔
چہارم…
یہ کہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لئے ایک اور نبی کی ضرورت ہو۔ قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضورﷺ کو تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایاگیا ہے اور دنیا کی تمدنی تاریخ بتارہی ہے کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء کے آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔ قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث وسیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ حضورﷺ کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ وتحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا۔ جو کتاب آپ لائے تھے۔ اس میں ایک لفظ کی کمی بیشی آج تک نہیں ہوئی۔ نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔ جو ہدایت آپ نے قول وعمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی ہمیں اس طرح مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپ کے زمانہ میں موجود ہیں۔ اس لئے دوسری ضرورت (پہلے نبی کی تعلیم بھلا دی گئی ہو یا تحریف ہوگئی ہو) بھی ختم ہوگئی۔
پھر قرآن مجید یہ بات صاف صاف کہتا ہے کہ حضورﷺ کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کر دی گئی ہے۔ لہٰذا تکمیل دین کے لئے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔ اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت تو اس کے لئے نبی درکار ہوتا تو وہ حضورﷺ کے زمانے میں آپ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیاگیا تو یہ وجہ بھی ساقط ہوگئی۔‘‘ (تفہیم القرآن ج۴ ص۱۵۱)
نئی نبوت کی شہ رگ کٹ گئی
قرآن کی روشنی میں نئی نبوت کے داعیات ہی جب پائے نہیں جاتے تو پھر علم واستدلال کی اس بحث کے بعد نتیجہ واضح ہے کہ آئندہ نیا نبی کون سی ضرورت پوری کرنے آئے گا۔