M
برصغیر ہندوپاک میں قادیانی فرقہ ایک عرصہ سے عالم اسلام کے لئے ایک ایسا خطرناک سرطان بن کر نمودار ہوا ہے۔ جس کی جڑیں ہمیشہ غیرملکی اقتدار اور لادینی نظام سے وابستہ رہی ہیں۔ لیکن وہ اندر ہی اندر ملت اسلامیہ کا خون چوس کر بڑھتا پھولتا رہا ہے۔ خصوصاً پاکستان آج کل اس کی زد میں ہے۔ پاکستان قائم ہونے سے پہلے ایک لادینی نظام میں جس آزادی کے ساتھ قادیانی نبوت کے ذریعہ مرتد سازی کا کام جاری تھا۔ اسلامی جمہوریہ میں وہ سلسلہ اسی آزادی سے جاری ہے۔ امت مسلمہ کے سینے میں اس ناسور نے سراٹھایا تھا۔ آج اس کے زہریلے اثرات حکومت کے اعضائے رئیسہ تک پھیل چکے ہیں اور جس کی مملکت کے اعضائے رئیسہ ہی کسی مہلک بیماری کا شکار ہو جائیں تو پھر اس کا استحکام اور سلامتی خطرے سے دوچار ہوکے رہتی ہے۔
اور یہ فرقہ اس وقت اسرائیل کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ جب کہ اس کی وفاداریاں اور ہمدردیاں غیرملکی اقتدار سے وابستہ ہوں اور اس کا ماضی بھی انگریز پرستی کا منہ بولتا ثبوت ہو۔ یہ ایشائی اسرائیل قائم یہاںہوا۔ لیکن مقصد غیرملکیوں کا پورا کرتا ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر ۱۹۵۳ء میں پاکستان کے عوام اور ہر مکتب فکر کے سرکردہ علماء نے حکومت وقت سے متفقہ مطالبہ کیا تھا کہ نئی نبوت کا تصور چونکہ اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ایک صریح ارتداد اور عقیدۂ ختم نبوت کے منافی ہے۔ لہٰذا اسے غیرمسلم اقلیت قرار دے کر حکومت کے کلیدی اور اہم مناصب سے الگ کر دیا جائے۔ جب کہ وہ ایک الگ امت بن کر امت مسلمہ سے خود بخود کٹ بھی چکے ہیں۔
لیکن افسوس کہ مسلمانوں کے اس اہم متفقہ مطالبہ پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ حتیٰ کہ اس ناسور کے زہریلے اثرات نے ملک کے ایک بہت بڑے حصہ کو کاٹ کر الگ کر دیا اور نہ معلوم بقیہ ملک کے کس کس گوشہ میں اس کی خطرناکیاں سرایت کر رہی ہیں۔ مرزائیوں کے بنیادی اور مجموعی عقیدہ وعمل کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اندر مسیلمہ کذاب کی روح اور ان کی رگ وپے میں کلائیو اور وفولی کا لہو جاری ہے۔ ان کی بھیگی ہوئی۔ آستینیں احتساب کے شکنجہ میں نچوڑ ی جائیں تو تحریک آزادی ہند سے لے کر شہداء تحریک اسلامی پاکستان تک کا خون ٹپک سکتا ہے۔ بلکہ اندرون ملک سازشوں سے لے کر سقوط مشرقی پاکستان تک کے المیہ کا بھی سراغ مل سکتا ہے۔ آج پھر عوام