نہیں بھیجا۔ مگر اپنی قوم کی زبان میں ہی، لیکن مرزاقادیانی کو ان زبانوں میں ’’الہامات‘‘ ہوئے جو مرزاقادیانی کی قومی زبان نہ تھی۔
مرزاقادیانی خود لکھتا ہے: ’’یہ بالکل غیرمعقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے۔ ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا۔ جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘
(چشمۂ معرفت ص۲۰۹، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
یہاں تک ہی نہیں کہ مرزاغیرزبانوں کے الہامات نہ سمجھ سکا ہو۔ بلکہ بہت سے اردو اور عربی الہامات بھی مرزاقادیانی کی سمجھ سے بالاتر رہے اور اسے یہ تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ الہامات کس کے متعلق ہیں۔ نمونہ ملاحظہ ہو:
۱… ’’پیٹ پھٹ گیا۔ دن کے وقت کا الہام ہے۔ معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۱۹)
۲… ’’خدا اس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا۔ نہ معلوم کس کے حق میں یہ الہام ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۱۹)
۳… ’’۲۴؍ستمبر ۱۹۰۶ء مطابق مورخہ ۵؍شعبان ۱۳۲۴ھ بروز پیر، موت ۱۳؍ماہ حال کو۔ (نوٹ) قطعی طور پر معلوم نہیں کہ کس کے متعلق ہے۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۹،۱۲۰)
۴… ’’بہتر ہوگا اور شادی کر لیں۔ معلوم نہیں کہ کس کی نسبت یہ الہام ہے۔‘‘
(البشریٰ ج۲ ص۱۲۴)
۵… ’’بعد… ۱۱… انشاء اﷲ!‘‘ اس کی تفہیم نہیں ہوئی کہ ۱۱ سے کیا مراد ہے۔ گیارہ دن یا گیارہ ہفتے یا کیا یہی ہندسہ ۱۱ کا دکھایا گیا۔ (البشریٰ ج۲ ص۶۵،۶۶)
۶… ’’غثم غثم غثم۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۵۰)
۷… ’’ایک دم میں دم رخصت ہوا۔‘‘ (نوٹ از حضرت مسیح موعود) فرمایا کہ آج رات مجھے ایک (مندرجہ بالا) الہام ہوا۔ اس کے پورے الفاظ یاد نہیں رہے اور جس قدر یاد رہا وہ یقینی ہے۔ مگر معلوم نہیں کہ کس کے حق میں ہے۔ لیکن خطرناک ہے۔ یہ الہام ایک موزؤں عبارت میں ہے۔ مگر ایک لفظ درمیان میں سے بھول گیا۔ (البشریٰ ج۲ ص۱۱۷)
۸… ’’ایک عربی الہام تھا۔ الفاظ مجھے یاد نہیں رہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ مکذبوں کو نشان دکھایا جائے گا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۹۴)