۔ لیکن اگر مرزاقادیانی کے الہامات کو سرسری نظر سے دیکھا جائے تو ایسے الہامات بکثرت نظر آتے ہیں۔ جنہیں خود مرزاقادیانی بھی نہ سمجھ سکتا تھا۔
چنانچہ مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں۔ جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لہم‘‘ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا۔ مگر اپنی قوم کی زبان میں ہی تاکہ انہیں کھول کھول کر بتادے۔ لیکن قرآن پاک کے اس صریح اصول کے خلاف مرزاقادیانی کو ان زبانوں میں بھی الہامات ہوئے ہیں۔ جنہیں وہ خود نہیں سمجھ سکا۔ دوسروں کو کیا خاک سمجھاتا۔ نمونہ کے طور پر مرزاقادیانی کے چند ایسے ہی الہامات درج کئے جاتے ہیں۔ جنہیں وہ خود بھی نہ سمجھ سکا۔
۱… ’’ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی اٰوس‘‘ اے میرے خدا اے میرے خدا مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی اٰوس بباعث وردو مشتبہ رہا اور نہ اس کے کچھ کچھ معنی کھلے۔ ’’واﷲ اعلم بالصواب‘‘ (البشریٰ ج۱ ص۳۶)
۲… ’’پھر بعد اس کے خدا نے فرمایا: ’’ھو شعنا نعسا‘‘ یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور ان کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴)
۳… ’’پریشن، عمر براطوس یا پلاطوس (نوٹ) آخری لفظ پراطوس یا پلاطوس ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور نمبر۲ میں عمر عربی لفظ ہے۔ اس جگہ پراطوس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیاہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۶۸، البشریٰ ج۱ ص۵۱)
مرزائیو! تمہارے رودرگوپال، جے سنگھ بہادر کو جس زبان میں الہام ہوتا ہے۔ وہ خود اس زبان کو نہیں جانتا اور اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے۔ ایسے میں مرزاقادیانی پر یہ مثال صادق آتی ہے۔ ’’زبان یار من ترکی ومن ترکی نمیدانم‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا اور اسی طرح کے دیگر الہامات اس خدا کی طرف سے نہیں تھے۔ جس نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘ کہ ہم نے کوئی رسول