’’انک لمن المرسلین‘‘ اے مرزا تو بیشک رسولوں میں سے ہے۔
(حقیقت الوحی ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰)
’’ہمارا نبی اس درجہ کا نبی ہے کہ اس کی امت کا ایک فرد نبی ہوسکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ امتی ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۸۴، خزائن ج۲۱ ص۳۵۵)
’’اسی طرح اوائل میں میرا عقیدہ یہی تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے۔ اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی۔ اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیا۔ مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹، ۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیش گوئی ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۵۰۲)
’’جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے۔ اس کا انہی حدیثوں میں یہ نشان دیاگیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور امتی بھی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۹، خزائن ج۲۲ ص۳۱)
لاہوری مرزائیو!
مرزاقادیانی کی کتابوں، اشتہاروں اور ڈائریوں سے نقل کردہ ان حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاملعون نے کس دھڑلے سے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو نبی لکھا۔ تم کب تک مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرو گے؟ مرزاقادیانی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے: ’’خداتعالیٰ نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں۔ اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی نبوت بھی ان سے ثابت ہوسکتی ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۱۷، خزائن ج۲۳ ص۳۳۲) یہاں تو مرزاقادیانی نے فیصلہ کن بات لکھ دی کہ میرے نشانات معمولی نہیں ہیں۔ بلکہ اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر وہ نشان ہزارہا نبی پر بھی تقسیم کر دئیے جائیں تو ان کی نبوت بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اب لاہوری مرزائی جواب دیں کہ جب مرزاقادیانی کے نشانوں سے ہزار نبی کی نبوت ثابت ہوسکتی ہے تو مرزاقادیانی نبی کیوں نہ ہوا۔