تو میرے نزدیک بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے۔ (حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹)
’’انت منی بمنزلۃ اولادی‘‘ تو مجھ سے بمنزلہ میری اولاد کے ہے۔
(البشریٰ ج۲ ص۶۵)
’’مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔‘‘ (توضیح مرام ص۲۷، خزائن ج۳ ص۶۴)
مرزائیو! تمہارے حضرت نے تو کہا تھا کہ میں بالکل قران ہی کی طرح ہوں اور مجھ سے وہی ظاہر ہوگا جو قرآن سے ظاہر ہوا۔ لیکن یہاں تو اصول قرآنی کے صریحاً خلاف الہامات کے چھینٹے برس رہے ہیں۔ قرآن کریم نے نہایت ہی زبردست الفاظ میں تردید کی ہے کہ اﷲتعالیٰ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا۔ جیسا کہ فرمایا ہے: ’’وقالو اتخذ الرحمن ولداً لقد جئتم شیأ ادّا تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ہدا ان دعوا للرحمن ولداً وما ینبغی للرحمن ان یتخذوا ولداً (مریم:۸۸،۹۰)‘‘ {(مرزاقادیانی اور اس کے چیلے) کہتے ہیں کہ رحمن نے (مرزاقادیانی کو) بیٹا بنایا۔ (مرزائیو) یقینا تم ایک خطرناک بات کر گزرے۔ قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر گر جائیں کہ وہ (مرزائی) رحمن کے لئے بیٹے کا دعویٰ کرتے ہیں اور رحمن کو شایان نہیں کہ وہ بیٹا بنائے۔}
ان آیات میں کن زور دار اور ہیبت ناک الفاظ میں تردید کی گئی ہے کہ خدائے رحمن نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اﷲتعالیٰ کے شایان شان ہے کہ وہ بیٹا بنائے۔مرزاقادیانی کے مریدو
جواب دو کہ اپنے گورو کے دونوں الہاموں میں سے کس کو سچا سمجھتے ہو اور کس کو غلط؟ اگر اس الہام کو صحیح مانتے ہو کہ میں بالکل قرآن ہی کی طرح ہوں اور مجھ سے وہی ظاہر ہوگا جو قرآن سے ظاہر ہوا تو دوسرے الہام کہ اے مرزا تو میرے نزدیک بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے کے متعلق کیا کہو گے؟ قرآن پاک عقیدہ ابنیت کی بیخ کنی کر رہا ہے اور مرزاقادیانی کا الہام اسے خدا کا بیٹا بنا رہا ہے۔ مرزاقادیانی کو اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’سرک سری‘‘ اے مرزا تیرا بھید میرا بھید ہے۔
(البشریٰ ج۲ ص۱۲۹)
’’ظہورک ظہوری‘‘ اے مرزا تیرا ظہور میرا ظہور ہے۔ (البشریٰ ج۲ ص۱۲۶)
ان دونوں حوالہ جات سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ خدا نے مرزاقادیانی کو فرمایا کہ اے