نہ مانیں گے وہ لامحالہ دوسری امت ہوں گے۔ ان دونوں امتوں کا اختلاف محض فروعی اختلاف نہ ہوگا۔ بلکہ ایک نبی پر ایمان لانے اور نہ لانے کا ایسا بنیادی اختلاف ہوگا جو انہیں اس وقت تک جمع نہ ہونے دے گا۔ جب تک ان میں سے کوئی اپنا عقیدہ نہ چھوڑ دے۔ پھر ان کے لئے عملاً بھی ہدایت اور قانون کے ماخذ الگ الگ ہوں گے۔ کیونکہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور سنت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے ماخذ قانون ہونے کا سرے سے منکر ہوگا۔ اس بناء پر ان کا ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔ ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ختم نبوت امت مسلمہ کے لئے اﷲ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے۔ جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہربنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمدﷺ کو اپنا ہادی ورہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور مأخذ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو۔ وہ اس برادری کافرد ہے اور ہر وقت ہوسکتا ہے یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہوسکتی تھی۔ اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا۔ کیونکہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔
آدمی سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہہ دے گی کہ جب تمام دنیا کے لئے ایک نبی بھیج دیا جائے اور جب اس نبی کے ذریعہ سے دین کی تکمیل بھی کر دی جائے اور جب اس نبی کی تعلیم کوپوری طرح محفوظ بھی کر دیا جائے تو نبوت کا دروازہ بند ہو جانا چاہئے۔ تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہوکر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لئے اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے اور بلاضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امت میں باربار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔ نبی خواہ ظلی ہو یا بروزی امتی ہو یا صاحب شریعت اور صاحب کتاب۔ بہرحال جو شخص نبی ہوگا اور خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہوگا۔ اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کے ماننے والے ایک امت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔ یہ تفریق اس حالت میں تو ناگزیر ہے۔ جب کہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو۔ مگر جب اس کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہے تو خدا کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر وایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں کبھی ایک امت نہ بننے دے۔ لہٰذا جو کچھ قرآن پاک سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔ عقل بھی اسی کو صحیح تسلیم کرتی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہئے۔