کے درمیان کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا کہ جو شخص محمدﷺ کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور جو اس کے دعویٰ کو مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
اب یہ دیکھنا ہر صاحب عقل آدمی کا اپنا کام ہے کہ لفظ خاتم النبیین کا جو مفہوم لغت سے ثابت ہوتا ہے۔ جو قرآن مجید کی عبارت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے۔ جس کی تصریح نبیﷺ نے خود فرمادی ہے۔ جس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے اور جسے صحابہ کرامؓ کے زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان بلااختلاف مانتے رہے ہیں۔ اس کے خلاف کوئی دوسرا مفہوم لینے اور کسی نئے مدعی کے لئے نبوت کا دروازہ کھولنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے اور ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے باب نبوت کے مفتوح ہونے کا محض خیال ہی ظاہر نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس دروازے سے ایک ملعون آدمی (مرزاقادیانی) حریم نبوت میں داخل بھی ہوگیا ہے اور یہ لوگ اس کی نبوت پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔ اب اس سلسلے میں تین باتیں قابل غور ہیں:
۱…کیااﷲ کو ہمارے ایمان سے کوئی دشمنی ہے؟
پہلی بات یہ ہے کہ نبوت کا معاملہ ایک بڑا ہی نازک معاملہ ہے۔ قرآن مجید کی رو سے یہ اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے۔ جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر وایمان کا انحصار ہے۔ ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر، اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر، ایسے نازک معاملے میں تو اﷲتعالیٰ سے کسی بے احتیاطی کی بدرجہ اولیٰ توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر محمدﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا ہوتا تو اﷲتعالیٰ خود قرآن میں صاف صاف اس کی تصریح فرماتا، رسول اﷲﷺ کے ذریعہ سے اس کا کھلم کھلا اعلان کراتا اور حضورﷺ دنیا سے کبھی تشریف نہ لے جاتے۔ جب تک امت کو اچھی طرح خبردار نہ کر دیتے کہ میرے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور تمہیں ان کو ماننا ہوگا۔ آخر اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول کو ہمارے دین وایمان سے کیا دشمنی تھی؟ کہ حضورﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ تو کھلا ہوتا اور کوئی نبی آنے والا بھی ہوتا۔ جس پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہ ہوسکتے۔ مگر ہم کو نہ صرف یہ کہ اس سے بے خبر رکھا جاتا۔ بلکہ اس کے برعکس اﷲ اور اس کا رسول، دونوں ایسی باتیں فرمادیتے ہیں۔ جن سے چودہ سو برس تک ساری امت یہی سمجھتی رہی اور آج بھی سمجھ رہی ہے کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اب اگر بفرض محال نبوت کا دروازہ واقعی کھلا بھی ہو اور کوئی نبی آبھی جائے تو ہم بے خوف وخطر اس کا انکار کر دیں گے۔ خطرہ ہوسکتا ہے تو اﷲتعالیٰ کی باز پرس ہی کا تو ہوسکتا ہے۔ وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم یہ سارا ریکارڈ برسر عدالت لاکر رکھ