گئے ہیں۔ رسالہ ہذا کے لئے تفسیر حقانی، تفسیر خازن، تفہیم القرآن، رسالہ ترک مرزائیت اور دیگر کتب وتفاسیر سے استفادہ کیاگیا ہے۔
العاصی الراجی الیٰ رحمت رب المتعال!
مولوی غلام سبحانی
خطیب جامع مسجد موڑبفہ کلاں ضلع وتحصیل مانسہرہ
اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’الم۰ ذالک الکتٰب لا ریب فیہ ہدی للمتقین۰ الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلوٰۃ ومما رزقنہم ینفقون۰ والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ ہم یوقنون۰ اولئک علیٰ ہدی من ربہم واولئک ہم المفلحون (بقرہ:۱تا۵)‘‘ {یہ کتاب نہیں شک بیچ اس کے، راہ دکھاتی ہے۔ واسطے پرہیز گاروں کے وہ جو ایمان لاتے ہیں ساتھ غیب کے، اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور اس چیز سے کہ دی ہے ہم نے انکو خرچ کرتے ہیں اور جو لوگ کہ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس چیز کے جو اتاری گئی ہے طرف تیری اور جو کچھ اتاری گئی ہے پہلے تجھ سے اور ساتھ آخرت کے وہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اوپر ہدایت کے ہیں پروردگار اپنے سے اور یہ لوگ وہی ہیں چھٹکارا پانے والے۔}
تشریح: مفسرین حضرات نے حروف مقطعات کے معنی ’’دلا لۃ واشارۃ‘‘ بیان کرنے کے بعد پھر ان کا علم اﷲ کے سپرد کیا ہے۔ فرمایا ہے: ’’اﷲ اعلم بمرادہ‘‘ اﷲ ان کی مراد بہتر جانتا ہے۔ اب اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن حروف کا مفہوم، مقصود یا علم ہم نہیں سمجھتے۔ ان حرفوں کے خطاب سے مخاطب کرنا تکلیف ’’مالایطاق‘‘ ہے جو جائز نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ سورتوں کے ابتداء میں حروف تہجی اس لئے لائے ہیں۔ کیونکہ لغت عرب دو قسم کی تھی۔ مختصر اور دوسری مفصل۔ اگر قرآن پاک صرف ایک ہی لغت میں اترتا مثلاً ایجازی تو دوسرے تفصیلی، لغت والے اعتراض کرتے کہ یہ ہماری لغت نہیں ہے۔ اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لاتے اور اسی طرح اگر تفصیلی لغت میں اترتا، تو ایجازی والے اعتراض کرتے کہ یہ ہمارے لغت نہیں ہے۔ اس لئے ہم ایمان نہیں لاتے۔
قرآن مجید نے ان دونوں کے ساتھ مقابلہ کر کے انہیں مغلوب کر کے اپنا تابع بنانا تھا۔ اس لئے اوائل سورۃ میں حروف تہجی لاکر ایجازی لغت والوں کو مغلوب کیا اور باقی احکام اور قصص انبیاء وغیرہ، تفصیلی… لغت میں لاکر تفصیلی… لغت والوں کو مغلوب کر کے اپنا مقصد پورا