نہیں ہوا تھا۔ سو آج یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایسے لوگ واقعی دنیا میں ہوتے ہیں۔ جن کو میاں مٹھو کہا جاسکتا ہے۔
آپ لکھتے ہیں ہم کس کس نبی کو مانیں، کیا خوب! ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کو مانتے ہیں۔ مگر اب جو ﷲتعالیٰ کا نبی ظاہر ہوا اور وہ بھی رسول اﷲﷺ کی غلامی میں انکار کرنے کے لئے آپ بہانے بنارہے ہیں۔
آپ نے پہلے پرچے میں عبداﷲ تیماپوری اور اس پرچے میں اسماعیل لنڈنی کے نام سے پیش کئے ہیں۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے۔ جو صادق تھا اس کو ہم نے مان لیا ہے۔ آپ چونکہ ان کے دامن سے وابستہ نہیں ہوئے۔ اس لئے آپ کو آئے دن ایسے ہی نبیوں سے سابقہ پڑتا رہے گا۔
آپ کے اس پرچے میں پھر محمدی بیگم کے نکاح کی پیش گوئی پر اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ ہم اپنے پہلے پرچہ میں بہ وضاحت اس کا جواب دے چکے ہیں۔
چونکہ آپ نے اشارہ کیا ہے۔ اس لئے آپ کی تسکین کے لئے ہم یہ حوالہ بھی پیش کر دیتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ اﷲتعالیٰ نے فرعون کی بیوی آسیہ، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثوم اور عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم سے میرا نکاح کر دیا ہے۔ سو اگر شرائط ضرور یہ کا لحاظ کئے بغیر ایک ہی بات کی رٹ لگائے جانا کوئی کمال ہے تو آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا کہ آیا یہ نکاح ہوگئے تھے۔
آپ نے یہ کیا کچا جواب دیا ہے کہ رسول خداﷺ نے ان نکاحوں کو اپنے صدق اور کذب کا معیار تو نہیں بتایا تھا۔ تو کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ اگر حضورﷺ کی یہ بات غلط بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘
آپ نے اس پرچے میں پھر کئی ایسے لوگوں کے نام لئے ہیں۔ جو احمدیت سے مرتد ہوچکے ہیں۔ آپ اس سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ دنیا میں وہ کون سا نبی آیا ہے۔ جس کے ماننے والوں میں سے کچھ نہ کچھ لوگ مرتد نہ ہوئے ہوں۔ ہم اپنے سابقہ پرچے میں رسول کریمﷺ کے کاتب وحی کے ارتداد کا ذکر کر چکے ہیں اور اس حقیقت پر تو قران مجید، احادیث اور تاریخ عالم گواہ ہے۔ ان کے ارتداد سے یہ کیونکر لازم آگیا کہ احمدیت برحق نہیں۔
ہم اپنے سابقہ پرچے میں بھی دریافت کر چکے ہیں کہ اگر آپ کی کوئی بات جواب کے بغیر رہ گئی ہو تو اس کی نشان دہی کیجئے۔ ورنہ حاضرین گواہ رہیں کہ ہم نے اپنے مدمقابل کی ہر بات