ان دلائل کو پیش کرنے کے بعد ہم اپنے مدمقابل کے اعتراضات کا جواب دیتے ہیںَ
آپ نے اپنے پہلے پرچے میں ڈاکٹر عبدالحکیم کا ایک زائچہ بنا کر بھیجا تھا۔ جس میں اس کی آخری پیش گوئی ۱۶؍فروری ۱۹۰۸ء کی بایں الفاظ درج کی ہے۔
’’مرزاقادیانی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جائے گا۔‘‘
ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے مدمقابل نے امانت اور دیانت کا بری طرح خون کیا ہے۔ کیونکہ اس نے ۸؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا تھا: ’’مرزاقادیانی کے متعلق میرے جدیدہ الہامات شائع کرکے ممنون فرماویں اور وہ جدید الہام یہ ہے کہ مرزاقادیانی ۲۱؍ساون یعنی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء کو مرض مہلک میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو جائے گا۔‘‘
ناظرین کو یاد رہے کہ ڈاکٹر عبدالحکیم نے حضرت مرزاصاحب کے بارے میں کئی پیش گوئیاں کی تھیں اور تھوڑے تھورے عرصے کے بعد اپنی ہر پیش گوئی کو منسوخ کر دیا کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی پیش گوئی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک کو منسوخ کر دیا اور جیسا کہ اوپر ذکر ہوا لکھا کہ: ’’مرزاقادیانی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک نہیں بلکہ ۴؍اگست ۱۹۰۸ء کو مرض مہلک میں مبتلا ہوجائے گا۔‘‘
دنیا جانتی ہے کہ عبدالحکیم کی یہ پیش گوئی بالکل جھوٹی نکلی اور اﷲتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو اس کی شرارت سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود نے (چشمہ معرفت ص۳۲۲، خزائن ج۲۳ ص۳۳۷) پر اس کی تک والی پیش گوئی کے مقابلے میں لکھا تھا کہ میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔
حضرات! مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے بھی عبدالحکیم کی اس پیش گوئی کے جھوٹا ہونے کی تصدیق کی ہے۔ حالانکہ وہ جماعت احمدیہ کے شدید دشمن تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ہم خدا لگتی کہنے سے رک نہیں سکتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر اسی پر بس کرتے یعنی ۱۴ بایں ہمہ پیش گوئی کر کے مرزاقادیانی کی موت کی تاریخ مقرر نہ کر دیتے جیسا کہ انہوں نے کیا۔ چنانچہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۸ء کے اہل حدیث میں ان کے الہامات درج ہیں کہ ۲۱ساون یعنی ۴؍اگست کو مرزا مرے گا تو آج وہ اعتراض نہ ہوتا جو معزز ایڈیٹر پیسہ اخبار نے ڈاکٹر صاحب کے اس الہام پر چبھتا ہوا کیا ہے کہ ۲۱؍ساون تک ہوتا تو خوب ہوتا۔‘‘
آپ باربار کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کے آنے سے عیسائیت کی اشاعت بڑھ گئی ہے۔ آپ نے پہلے بھی یہ اعتراض کیا تھا اور ہم اسی وقت مفصل جواب دے چکے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ