اور بدروش ہے تو وہ پھر بھی یہی تمنا رکھتا ہے کہ اس کی اولاد نیک چلن ہو اور بزبان حال وقال پکار پکار کر کہتا ہے کہ
من نہ کردم شما حذر بکنید
اب آئیے اس نفسیاتی نگاہ سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی سچائی کو پرکھئے۔ آپ فرماتے ہیں ؎
مرے مولا مری اک دعا ہے
تیری درگاہ میں عجز وبکا ہےوہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے
زباں چلتی نہیں شرم وحیا ہے
مری اولاد جو تیری عطا ہے
ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے
تری قدرت کے آگے روک کیا ہے
وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے
(درثمین اردو)
مقام غور ہے کہ اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ واقعی ایسے ہی تھے جیسے کہ ہمارے مدمقابل ظاہر کرتے ہیں تو علم النفس کی روشنی میں سوچئے وہ اپنی اولاد کے لئے یہ دعا کیونکر کر سکتے۔
وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے
۱۹… قرآن مجید کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آنے والے راست باز نے پہلے راست بازوں کی تصدیق فرمائی اور دشمنوں کے الزامات اور اتہامات کا تاروپود بکھیرا۔ ان کا یہ کارنامہ بذات خود ان کی سچائی کی بہت بڑی دلیل ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے اگر حضرت مرزاصاحب کی سچائی کو پرکھا جائے تو بھی آپ راست باز ٹھہرتے ہیں۔
آپ کے آنے سے پہلے علمائے زمانہ نے خدا، اس کے فرشتوں اور نبیوں پر ایسے ایسے گندے الزامات لگا رکھے تھے کہ جنہیں سننا بھی گوارا نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً خداتعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو اپنی قسم پورا کرنے کے لئے ایک چال سکھائی۔ خدا کے فرشتے ایک فاحشہ پر عاشق ہوگئے اور سزا کے طور پر چاہ بابل میں الٹے لٹکائے گئے۔ حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے جھانسے میں آگئے۔ (معالم التنزیل ص۲۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام جھوٹ بولے۔ (بخاری نمبر۲ ص۱۴۶) حضرت یوسف علیہ السلام نے زنا کا ارادہ کیا۔ (معالم التنزیل ص۴۶۱) حتیٰ کہ حضرت رسول کریمﷺ پر الزام لگایا کہ وہ اپنے ایک جان نثار خادم زید کی منکوحہ پر عاشق ہوگئے۔ (معالم التنزیل ص۷۱۷) اور حضرت رامچندر کو تو یہ ملاں اتنا برا جانتے تھے کہ ان کا نام تک لینے کے لئے تیار نہ تھے۔ حضرت مسیح موعود نے دنیا میں آتے ہی فرمایا: