طرف لفظ تقوّل اشارہ کر رہا ہے۔ دعویٰ الہام کے بعد تو حضرت مرزاصاحب قریباً چالیس برس تک زندہ رہے۔ آپ نے لکھاہے کہ مرزاصاحب نے پیش گوئی کی تھی کہ محمد حسین بٹالوی ان پر ایمان لے آئے گا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ پیش گوئی یہ تھی کہ ’’یؤمن بایمانی‘‘ یعنی وہ میرے مؤمن ہونے کو تسلیم کرلے گا۔ یادرہے گا کہ مولوی محمد حسین نے سارے ہندوستان میں پھر کر حضرت مرزاصاحب کے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کروایا تھا۔ لیکن آخر ۱۹۱۲ء میں لالہ دیو کی نندن مجسٹریٹ درجہ اوّل وزیرآباد کی عدالت میں مقدمہ نمبر۱۳۰۰ میں بٹالوی نے حلفاً بیان کیا کہ میں احمدی جماعت کو مسلمان سمجھتا ہوں۔ سو پیش گوئی پوری ہوگئی۔
ہم مکہ میں مریں گے یا مدینہ میں۔ حضرت مرزاصاحب نے خود اس کی تشریح بیان فرمائی ہے کہ یہ کلمہ کہ ہم مکہ میں مریں گے یا مدینے میں۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ قبل از موت مکی فتح نصیب ہوگی۔ جیسا کہ وہاں دشمنوں کو قہر کے ساتھ مغلوب کیاگیا تھا۔ اسی طرح یہاں بھی دشمن قہری نشانوں سے مغلوب کئے جائیں گے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ قبل از موت مدنی فتح نصیب ہوگی۔ خود بخود لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہو جائیں گے۔ (تذکرہ ص۵۲۶)
محمدی بیگم کی پیش گوئی کے بارے میں ہمارا جواب یہ ہے کہ یہ پیش گوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ اگر یہ رشتہ کسی دوسری جگہ کیا جائے گا تو:
۱… احمد بیگ (محمدی بیگم کا والد) روز نکاح سے تین سال کے اندر اندر مر جائے گا اور دنیا جانتی ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر مر گیا۔
۲… محمدی بیگم کا خاوند اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا۔ بشرطیکہ توبہ نہ کرے اور دنیا جانتی ہے کہ اس نے توبہ کی۔ چنانچہ اس کے خط کا چربہ ہمارے پاس موجود، جو چاہے دیکھ سکتا ہے۔ ان دونوں موتوں کے بعد محمدی بیگم کا نکاح ہونا مقدر تھا ورنہ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
منظور محمد کے ہاں لڑکا پیدا ہونے کے متعلق جو پیش گوئی تھی اس کے متعلق حضرت مرزاصاحب نے فرمایا ہے۔ ’’معلوم نہیں کہ منظور محمد کے لفظ سے کس کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ لہٰذا کسی کو کوئی حق نہیں کہ اپنے نام بردہ منظور محمد کے ہاں بیٹا پیدا ہونے پر اصرار کرے۔
آپ نے لکھا ہے کہ حضرت مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اصل پیش گوئی یہ تھی کہ قادیان میں ’’طاعون جارف‘‘ نہیں آئے گی۔ یعنی جھاڑو دینے والی۔ جس سے لوگ جابجا بھاگتے ہیں۔ لکھا ہے کچھ ہرج نہیں کہ انسانی