ہمارے مدمقابل نے ان کو چھونا تک گوارا نہیں کیا اور عذر یہ کیا ہے کہ صاحب! مال بھی آپ کا اور پرکھنے کا طریقہ بھی آپ مقرر کریں؟ ہمیں ان کی عقل پر تعجب آتا ہے۔ اگر کفار مکہ یہی بات حضرت رسول پاکﷺ سے کہتے تو آپ کیا جواب دیتے۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے یہی بات کہی تھی۔ مگر اﷲتعالیٰ نے اور اس کے رسول نے کوئی پروا نہ کی۔ کیا آپ نے سورۂ بنی اسرائیل میں یہ نہیں پڑھا کہ مکہ کے کافر آنحضرتﷺ کے پیش کردہ دلائل پر توجہ کرنے کی بجائے اپنی طرف سے من گھڑت طریقے پیش کیا کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا تھا: ’’اوترقیٰ فی السماء ولن نؤمن لرقیک حتیٰ تنزل علینا کتباً نقروہ‘‘
یعنی اگر آپ سچے ہیں تو آسمان پر چڑھ کر دکھائیے۔ مگر ہم کو آپ کے آسمان پر چڑھنے کا یقین اس وقت آئے گا جب کہ آپ وہاں سے کوئی تحریر بھیجیں گے جو آپ کے وہاں پہنچنے کی رسید ہوگی۔
ہم اپنے گزشتہ پرچوں میں مندرجہ بالا حقیقت پر کافی سے زیادہ روشنی ڈال چکے ہیں اور آج پھر اپنے مدمقابل کے ذکر چھیڑنے پر ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان میں ہمت ہے۔ کوئی دم خم ہے تو اس کا جواب دیں اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ قرآن مجید میں آنحضرتﷺ کی سچائی کے جو دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ کافروں کے تجویز کردہ ہیں یا اﷲتعالیٰ کے۔ جن کو اﷲ کے رسول نے مخالفین کے سامنے اپنی صداقت پرکھنے کے لئے پیش فرمایا تھا؟ اسی طرح ہم نے کئی سابقہ نبیوں کے نام لے لے کر آپ کو توجہ دلائی تھی۔ مگر آپ نے اس کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ وہ تمام نبی جو اپنے تئیں رسول امین کہہ کر اپنی سچائی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ کسوٹی ان کی طرف سے پیش کی گئی ہے یا ان کے گاہکوں کی طرف سے؟
سامعین کرام! صداقت حضرت مرزاصاحب کے سلسلے میں ہماری طرف سے پیش کردہ نو دلائل کے علاوہ اب آپ مزید چند دلائل سماعت فرمائیں۔
۱۰… قرآن مجید میں علیحدہ طور پر اس معیار پر زور دیا ہے کہ اے مخالفو! جب تم اپنی بیویوں کی پاک دامنی پر یقین کر کے ان سے پیدا ہونے والے بچوں کو اپنی اولاد یقین کر لیتے ہو تو ہمارے نبی کی قبل از دعویٰ چالیس سالہ لمبی مگر پاک اور مطہر زندگی کو دیکھو کہ اس کی سچائی پر کیوں یقین نہیں لاتے؟
یہ مضمون: ’’یعرفونہ کما یعرفون ابناء ہم (آل عمران)‘‘ کی آیت قرآنیہ میں مذکور ہے۔