نتیجہ
مرزاقادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو رخصت۔ عبدالحکیم زندہ۔ تو مرزاقادیانی کو جو خدا نے وعدہ کیا تھا اس کو دائیں طرف دیکھ لیں۔ وہ سب کہاں گیا۔ ’’تک‘‘ اور ’’کو‘‘ کا جواب نہ دیا۔ خود مرزاقادیانی نے چشمہ معرفت میں تک لکھا ہے۔ خیر اب اسی پر اکتفاء ہے۔ آپ نے کچھ آیات نقل کئے جواب آہستہ آہستہ دوں گا۔ ’’لقد لبثت فیکم (یونس:۳۱)‘‘ کا جواب کا عدالت کی کارروائی یا مختاری کا امتحان کا فیل ہونا یا محمدی بیگم کی پیش گوئی یا عبدالحکیم کی پیش گوئی کسی ایک کو مقرر کرو اور قدرت خدا کا تماشا دیکھو۔
’’ظہر الفساد فی البر (الروم:۴۱)‘‘ کا جواب یہ کہ جب ست جگہ آگیا۔ مرزاقادیانی رودرگوپال۔ اور جے سنگھ اور آریوں کے بادشاہ وغیرہ بن کر چلے گئے۔ مگر فساد بڑھتا ہی گیا۔ گرانی بڑھتی گئی۔ گاڑی آئی بھی اور چلی بھی گئی۔ مگر سگنل ابھی تک ڈاؤن ہے۔ اب اس کے بعد مرزاقادیانی کو ہم دوسرے معیار سے جانچیں گے۔ مولوی سلیم ہم گاہک ہیں معیار اصلی ونقلی مقرر کرنا ہمارا کام ہے، تمہارا نہیں۔ تم پنجاب سے ایک مذہب لائے ہو۔ ہمارے پاس مکہ اور مدینہ منورہ کا چودہ سو سال کا مذہب موجود ہے۔ ہم دونوں مذہب کا، دونوں نبی کا، مقابلہ اپنے عقل سے اور نقل سے کر کے اطمینان کریں گے۔ مگر یار تم عجب بیوپاری ہو کہ مال بھی تم ہی لائے اور معیار اصلی ونقلی بھی تم مقرر کرو گے۔ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔
(شرح دستخط) احقر محمد اسماعیل عفی عنہ
مورخہ ۲۵؍نومبر ۱۹۶۳ء
مناظر اہل سنت والجماعت۔ فاضل دیوبند۔ صدر جمعیت العلماء اڑیسہ، رکن مرکزی عاملہ جمعیت علماء ہند دہلی، رکن اڑیسہ مسلم وقف بورڈ۔ مہتمم مدرسہ عربیہ اسلام سونگھڑہ۔ ڈاکخانہ کوڈ ضلع کٹک اڑیسہ۔
نوشتہ بما ندہ سیاہ برسپیدنویسندہ رانیست فردا امید
سوچ کر جواب دو۔