نبوت کو وراثت پر چھوڑ گئے۔ اگر تیئس سالہ میعاد نبوت ہو تو دنیا میں کسی نبی کو اپنی امت دیکھنی نصیب نہ ہو۔ کیونکہ سب انتظار کریں گے۔ دیکھو مدت گزرتی ہے یا نہیں۔ قتل ہوتا ہے یا مرتا ہے۔ جب نبی مدت گزار کر اپنی موت مرے گا اس وقت امت کہے گی افسوس افسوس وہ تو نبی تھا۔ بھلا قرآن ایسامعیار مقرر کر سکتا ہے؟ اسی لئے عبداﷲ تیمارپوری کافی دن زندہ رہے اور مرزاقادیانی دعوت نبوت کے بعد کل زیادہ سے زیادہ چھ سال۔ مولوی سلیم ناراض نہ ہونا۔ ایک بڑے پتہ کی بات کہتا ہوں۔ کیونکہ یہ جنت دوزخ کا معاملہ ہے۔ آج تک دنیا میں ہم نے کہیں نہیں دیکھا کہ مال لانے والا اپنے مال کی پہچان کا طریقہ مقرر کرے بلکہ گاہک کو یہ حق ہر جگہ حاصل ہے۔ ہم کو حضور کی نبوت چھوڑ کر مرزاقادیانی کا کلمہ، دین، قرآن، نماز، حج، وغیرہ اختیار کرنے کی آپ دعوت دیتے ہیں۔ آپ یا تو بیوپاری ہیں یا میزبان اور ہم یا تو گاہک ہیں یا مہمان۔ لہٰذا ہم کو حق ہے کہ آپ جس چیز کو ہم کو دیتے ہیں اس کو پرکھیں کہ سونا ہے یا پیتل۔ اپنا اطمینان اپنے قاعدے سے ہرگاہک کرتا ہے۔ مگر آپ کہتے ہیں کہ اس سونے کو کسوٹی پر مت کسو۔ ایسڈ ٹسٹ مت کرو۔ آگ پر مت تپاؤ۔ مت کوٹو۔ تو اگر دنیا کا کوئی گاہک بیوپاری کے شرائط صداقت پر مال خریدتا ہوتا تو ہم بھی خریدتے۔ مگر دنیا میں ہر چیز نقلی بھی ہے اور اصلی بھی۔ اسی طرح اصلی ونقلی کی پہچان بھی ہے۔ یہاں تک کہ جب دنیا میں نقلی خدا ہوئے میں تو کیا تو نقلی نبی نہیں ہوسکتے۔ تو کیا آپ عبداﷲ تیماپوری کو یا قادیان کے نور احمد کابلی کو اصلی نبی مانتے ہیں؟ لہٰذا شرافت اور پیش گوئی اسی دو کو معیار قرار دو۔ خود مرزاقادیانی (استفتاء ص۳، خزائن ج۱۲ ص۱۱۱) پر فرماتے ہیں کہ: ’’توریت اور قرآن نے نبوت کا بڑا ثبوت پیش گوئی کو قرار دیا۔‘‘ لہٰذا پہلے مرزاقادیانی کو پیش گوئی کے معیار پر ان کے کہنے کے مطابق جانچتے ہیں۔ مرزاقادیانی نے محمدی بیگم کی شادی کی پیش گوئی کو اپنی صداقت کا معیار قرار دیا ہے۔ بہت ہی عظیم الشان نشان مانا ہے۔ (شہادت القرآن ص۷۹،خزائن ج۶ ص۳۷۵) اس پر مرزاقادیانی نے محمدی بیگم کی دوسری جگہ شادی ہو جانے کے باوجود بھی اپنے نکاح میں دوبارہ آنے کی پیش گوئی کی ہے۔ بلکہ (انجام آتھم ص۳۱، خزائن ج۱۱ ص۳۱) وغیرہ میں تو عربی وحی کی بھی مار کر دی ہے۔ الحق من ربک! فلا تکونن من الممترین سیدردھا الیک‘‘
اس کو چھ جزو قرار دیا ہے۔ (تذکرہ ص۸۲) پر جزو نمبر(۱) میرا زندہ رہنا۔ جزو نمبر(۲) نکاح کے وقت تک اس کے باپ کا زندہ رہنا کہا ہے۔ (شہادت القرآن ص۸۰، خزائن ج۶ ص۳۷۶)