’’لقد جاء کم‘‘ سے اسی طرح جن والی آیت سے اجرائے نبوت کا ثبوت میرے پیارے دوست ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے تیرا قلم کرشمہ ساز کرے
کیا یوسف علیہ السلام کو خاتم النبیین کا خطاب ملا تھا؟ کیا موسیٰ علیہ السلام کو یہ خطاب ملا تھا؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام کے بعد یا یوسف علیہ السلام کے بعد نبوت جاری تھی۔ اس وقت ختم نبوت کا خیال خام تھا۔ مگر ہمارے سرکار کے سر پر اﷲتعالیٰ نے دوتاج رکھے۔ ایک رسول اﷲ، دوسرا خاتم النبیین۔ اس لئے ان کے بعد نبوت جاری کرنا حماقت ہے۔ سراسر حماقت!
آپ نے باربار عیسیٰ علیہ السلام کا نام لیا ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی بحث کل چلی گئی۔ اگر سوال کرتے تو اس کا بہت معقول جواب دیتا۔ آج اس کا موقع نہیں پھر بھی اتنا سن لو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حکم، عدل بن کر آئیں گے۔ اگر آپ کہیں کہ خاتم النبیین کے بعد عیسیٰ کیسے زندہ رہے تو بتلادے کہ پھر خاتم الولد کے بعد مرزاقادیانی کے بھائی کیسے زندہ رہے۔ اجی جناب آخر کا ذکر ہے۔ اوّل کا نہیں۔ ہم ختم نبوت کے قائل ہیں۔ اس کے لئے خاتم النبیین ہی ایک کافی دلیل، دوست آج مہر اور خاتم الشعراء وغیرہ کا کیا بھول گئے ہو ذرا لکھ دینا۔
ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی ذریت کے لئے تھی جو حضور پر ختم ہوگئی۔ مگر دوست مرزاقادیانی تو ذریت چین ہیں۔ ’’کلوا من الطیبٰت‘‘ سے اجرائے نبوت۔ یہاں کھانے کا ذکر ہے نہ کہ نبی بننے کا، درود آل ابراہیم علیہ السلام کے لئے اور مرزاقادیانی آل ابراہیم علیہ السلام سے نہیں ہیں۔ وہ یا تو چینی ہیں یا مغل یا فارسی الاصل یا اور کوئی خاندان سے۔ پہلے یہ کہو کہ مرزاقادیانی کس کے آل سے ہیں۔ اس کے بعد درود ابراہیمی کا جواب سنو۔ ’’ہلک قیصر‘‘ کی حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ قیصر کا خاندان ختم ہوا۔ کسریٰ کا خاندان ختم ہوا۔ روم وایران کو صحابہ کرامؐ نے فتح کرلیا۔ حضورؐ کی پیش گوئی پوری ہوگئی۔ کل انشاء اﷲ مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے وقت ہم آپ کو جواب دیں گے۔ آپ نے خلاف شرائط مناظرہ پھر ابن عربی کا نام لیا۔ الانسان الکامل کا نام لیا۔ مجمع البحار کے تکملہ کا نام لیا۔ الیواقیت کا نام لیا اور نہ معلوم کن کن کتابوں کا نام لیا ہے۔ ہم ہرگز اس کا جواب نہیں دیں گے۔ میرے دوست ان کتابوں کا حوالہ اس لئے دے رہے ہیں کہ قرآن آپ کے ساتھ نہیں۔ احادیث آپ کے ساتھ نہیں۔ اس لئے آنحضرتﷺ متفق