حضرت مرزاصاحب نے اپنی بلند شان کا ذکر کر کے فرمایا ہے: ’’جب کہ میں ایسا ہوں تو سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیاگیا۔ ذالک فضل اﷲ یؤتیہ من یشائ‘‘ (کشتی نوح ص۵۶)
اس حوالے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت مرزاصاحب نے حضرت رسول کریمﷺ کی عظمت اور بڑائی کا تذکرہ فرمایا ہے اور آپؐ کے مقابلے میں حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی اصل پوزیشن کو واضح کیا ہے۔
آپ نے ’’کافۃ للناس‘‘ اور ’’رحمۃ للعالمین‘‘ وغیرہ آیات کو پیش کر کے یہ استدلال کیا ہے کہ اب رسول کریمﷺ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر مسیح ابن مریم کی کیا ضرورت ہے۔ اگر کسی نبی کی ضرورت نہیں تو نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ بھی چھوڑ دیجئے۔ ورنہ جب تک آپ اس عقیدے پر قائم ہیں آپ کو رسول کریمﷺ کے بعد نبوت کے بند ہونے کا دعویٰ کرنا زیبا نہیں۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ ہم گھر سے پرچہ لکھ کر لے آئے ہیں۔بھلا آپ ہی بتائیے کہ اس صورت میں ہم نے اپنے پرچے میں آپ کی تمام باتوں کا جواب کس طرح دے دیا۔ اس صورت میں تو آپ کو ہماری کرامت کا بھی قائل ہونا پڑے گا کہ ہم قبل از وقت جانتے ہیں کہ آپ کے دل میں کیا ہے۔
یقینا یاد رکھئے! ہم کوئی ایسا انداز اختیار نہیں کر رہے جو شرائط مقبولہ فریقین کے خلاف ہو۔ آپ بزعم خود ختم نبوت کے لئے ایک سو آیات پیش کرنے کے لئے مجھے گھر پر بلارہے ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے۔ آئے ہیں مناظرہ کرنے کے لئے اور بلا رہے ہیں گھر پر۔ ان سو آتیوں میں سے آٹھ دس تو یہاں پیش کریں۔ ہمیں آپ سے ہمدردی ہے کہ آپ ہمارا پرچہ نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی آپ کے دائیں بائیں بیٹھنے والے متعدد علماء ومعاونین آپ کو مدد دیتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ آپ کی حالت پر رحم کرے۔
مناظر جماعت احمدیہ
(شرح دستخط) محمد سلیم عفی عنہ
(دستخط صدر مناظرہ)