مقدمہ
قربانی کو ’’ قربانی‘‘ کیوں کہتے ہیں؟
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں:
’’قربانی اصل میں ’’قربان‘‘ سے ہے، یعنی قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کا قرب ڈھونڈتا ہے، چنانچہ کہتے ہیں: قربت للہ قرباناً۔میں نے اللہ کے لیے قربانی دی،چونکہ انسان قربانی سے قربِ الٰہی کا طالب ہوتا ہے، اس لیے اس فعل کا نام بھی قربانی ہوا۔‘‘
قربانی کیا ہے؟
ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل اور عالم سب پڑھ سکتے ہیں، وہ تعلیم یہ ہے کہ خدا کسی کے خون اورگوشت کا بھوکا نہیں، وہ تو ’’ وھویُطعم ولا یُطعَم‘‘ ہے، ایسا پاک اور عظیم الشان نہ تو کھالوں کا محتاج ہے نہ گوشت کے چڑھاوے کا بلکہ وہ تمہیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور میں اسی طرح قربان ہوجاؤ اور یہ بھی تمہارا قربان ہونا ہے کہ اپنے بدلے اپنا قیمتی پیارا جانور قربان کردو۔
کیا قربانی خلافِ عقل ہے ؟
جو لوگ قربانی کو خلافِ عقل کہتے ہیں وہ سن لیں کہ کُل دنیا میں قربانی کا رواج ہے، اور قوموں کی تاریخ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کے بدلے میں قربانی کی جاتی ہے، یہ سلسلہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں میں پایا جاتا ہے، ہم بچے تھے تو یہ بات سنی تھی کہ کسی کو زہریلا سانپ کاٹے تو وہ انگلی کاٹ دی جائے تاکہ کل جسم زہریلے اثر سے