قربانی کی جگہ کا اعتبار
مسئلہ(۲۶): بہتر تو یہی ہے کہ آدمی اپنی قربانی کا جانور خود پسند کرے، اس کی خدمت گزاری کرکے اس سے محبت کا تعلق پیدا کرے، اپنے ہاتھ سے ذبح کرے، ذبح نہ کرسکے تو اس مبارک وقت پر حاضر رہے، عید کے دن اپنی قربانی میں سے کھائے، پڑوس اور عزیز واقارب ، نیز غریبوں اور رشتہ داروں کو کھلائے، اور یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے جب قربانی اپنے وطن میں کی جائے، لیکن اگر کوئی شخص کسی عذر شرعی یا مصلحتِ شرعیہ کی بنا پر اپنے وطن میں قربانی نہ کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک میں قربانی کرے تو بدونِ حرج قربانی درست ہوگی، البتہ اس سلسلہ میں دو اصولی باتیں یاد رکھنی چاہیے:
۱ - قربانی کی ادائیگی واجب ہونے کے بعد ہی قربانی درست ہوگی، اور اس کی ادائیگی ۱۰؍ ذی الحجہ کی صبح صادق طلوع ہونے کے بعد واجب ہوتی ہے۔
۲- جہاں قربانی کی جارہی ہے وہاں کے وقت کا اعتبار ہوتا ہے، لہٰذا قربانی کرانے والے پر اپنے ملک میں قربانی کی ادائیگی واجب ہونے کے بعد اس کی طرف سے دوسرے ملک میں قربانی کی ادائیگی درست ہوگی، اور ادائے قربانی کے صحیح ہونے میں اس دوسرے ملک کے وقت کا اعتبار ہوگا، یعنی ۱۰؍ ذی الحجہ سے ۱۲؍ ذی الحجہ کے غروب تک قربانی کرنا جائز ہوگا ۔(۱)
------------------------------
(۱) ما فی ’’ البحر الرائق ‘‘ : وسببہا طلوع الفجر یوم النحر ۔
(۸/۳۱۷ ، کتاب الأضحیۃ ، الدر مع الرد :۶/۳۱۳) =