محفوظ رہے ، گویا انگلی تمام جسم کے لیے قربانی کی گئی ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا کوئی دوست آجائے تو جوکچھ ہمارے پاس ہو اسی کی خوشی کے لیے قربان کرنا پڑتا ہے، گھی ، آٹا ، گوشت وغیرہ قیمتی اشیاء اس پیارے کے سامنے کوئی ہستی نہیں رکھتیں۔(جاندار اور بے جان کو قربان کرنا بھی قربانی ہی ہے)اور اس سے زیادہ عزیز ہو تو مرغے مرغیاں ، حتی کہ بھیڑیں اور بکرے قربان کیے جاتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گائے اور اونٹ بھی عزیز مہمان کے لیے قربان کردیئے جاتے ہیں۔
طب میں دیکھا گیا ہے کہ وہ قومیں جو اس کو جائز نہیں سمجھتیں کہ کوئی جاندار قتل ہو، وہ بھی اپنے زخموں کے سینکڑوں کیڑوں کو مار کر اپنی جان پرقربان کردیتے ہیں۔
اس سے اوپر چلو تو ہم دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ لوگوں کو اعلیٰ کے لیے قربان کیا جاتا ہے، مثلاً بھنگی کہ تمام قوموں کی عید ہی کا دن ہو مگر ان بیچاروں کے سپرد وہی کام ہوتا ہے، بلکہ ایسے ایام میں ان کواور زیادہ تاکید ہوتی ہے کہ لوگوں کی آسائش وآرام کی خاطر کوئی گندگی کسی گزرگاہ میں نہ رہنے دیں، گویا ادنیٰ کی خوشی اعلیٰ کی خوشی پر قربان ہوئی۔
بعض ہندوگئو رکھشا بڑے زور سے کرتے ہیں ، لداخ کے ملک میں تو دودھ تک نہیں پیتے، کیوں کہ یہ بچھڑوں کا حق ہے ، مگر یہاں ہندو دھوکا دے کر اس کا دودھ دھولیتے ہیں، اور پھر اس سے اور اس کی اولاد سے سخت کام لیتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے کاموں کے لیے انہیں مار مار دوست کرتے ہیں، یہ بھی ایک قسم کی قربانی ہے۔
ادنیٰ سپاہی اپنے افسر کے لیے اور وہ افسر اپنے اعلیٰ افسر کے لیے ، اور وہ اعلیٰ افسر اپنے بادشاہ کے بدلے میں قربان ہوتا ہے۔… پس خدانے اس فطری مسئلہ کو برقرار رکھا، اور اس قربانی میں تعلیم دی کہ ادنیٰ اعلیٰ کے لیے قربان کیا جائے۔ ( احکام اسلام عقل کی نظر میں)