شرکاء کے درمیان گوشت کی تقسیم
مسئلہ(۷۵): اگر کسی بڑے جانور میں چند لوگ شریک ہوں، توقربانی کا گوشت اندازہ سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے، وزن کرکے برابر تقسیم کرنا ضروری ہے، اگر کسی حصہ میں گوشت کی کمی بیشی ہوگی تو سود ہوجائے گا، اور سود لینا دینا ، کھانا اور کھلانا سب حرام ہے (۱)، البتہ اگر کسی شریک نے سر اور پائیں لے لیے ، تو پھر اس کے حصے میں کم گوشت دینا جائز ہوگا ۔ (۲)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما فی ’’ البحر الرائق ‘‘ : وإذا جاز عن الشرکۃ یقسم اللحم بالوزن، لأنہ موزون ، وإذا أقسموا جزافاً لا یجوز ، لأن القسمۃ فیہا معنی المبادلۃ ۔ (۸/۳۱۹، کتاب الأضحیۃ)
ما فی ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : قال ہشام : سألت أبا یوسف عن البقرۃ إذا ذبحہا سبعۃ فی الأضحیۃ أیقسمون لحمہا جزافاً أو وزناً ؟ قال : بل وزناً ۔۔۔۔۔۔۔ أما عدم جواز القسمۃ مجازفۃ فلأن فیہا معنی التملیک ، واللحم من الأموال الربویۃ ، فلا یجوز تملیکہ مجازفۃ کسائر الأموال الربویۃ ۔
(۴/۱۰۱-۲۰۲، کتاب التضحیۃ ، کیفیۃ الوجوب)
ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : لو اشتری عشرۃ عشر أغنام بینہما فضحی کل واحد واحدۃ ، ویقسم اللحم بینہما بالوزن ۔ (۵/۳۰۶ ،کتاب الأضحیۃ ، الباب الثامن)
ما فی ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : ویقسم اللحم وزناً لا جزافاً ۔ الدر المختار ۔ قال العلامۃ ابن عابدین تحت قولہ : (لا جزافاً) لأن القسمۃ فیہا معنی المبادلۃ ، قال فی البدائع : أما عدم جواز القسمۃ مجازفۃ ، فلأن فیہا معنی التملیک ، واللحم من أموال الربا ، فلا یجوز تملیکہ مجازفۃ ۔
(۹/۳۸۵)
(۲) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإن اقتسموا مجازفۃً یجوز إذا کان أخذ کل واحد شیئاً من الأرکاع أو الرأس أو الجلد ۔ (۵/۳۰۶ ، کتاب الأضحیۃ ، الباب الثامن)=