قربانی سے پہلے کسی شریک کی موت
مسئلہ(۷۶): اگر سات افراد شریک ہو کر ایک بڑا جانور قربانی کے لیے خریدیں، اور قربانی کرنے سے پہلے ان میں سے کوئی شخص مرگیا ، مگر اس کے بالغ ورثاء ان شرکاء کو اجازت دیدیں کہ آپ لوگ میت اور اپنی طرف سے قربانی کرلیں، تو ان شرکاء کا قربانی کرنا جائز ہوگا، اور سب کی قربانی ادا ہوجائے گی(۱)، اور اگر میت کے وارثوں کی اجازت کے بغیر قربانی کریں تو درست نہیں ہوگی، اور کسی بھی شریک کی قربانی ادا نہیں ہوگی ۔ (۲)
------------------------------
=ما فی ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : لا جزافاً إلا إذا ضح معہ من الأرکاع أو الجلد ضرفاً للجنس لخلاف جنسہ ۔ (۹/۳۸۵، کتاب الأضحیۃ)
ما فی ’’ البحر الرائق ‘‘ : وإذا اقتسموا جزافاً لا یجوز إلا إذا کان معہ شيء آخر من الأرکاع والجلد ۔ (۸/۳۱۹، کتاب الأضحیۃ) (المسائل المہمۃ:۴/۱۸۲)
(۱) ما فی ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وإن مات أحد السبعۃ المشترکین فی البدنۃ ، وقال الورثۃ : اذبحوا عنہ وعنکم ، صح عن الکل استحسانا ، لقصد القربۃ من الکل ۔
(۹/۳۹۵ ، کتاب الأضحیۃ ، دار الکتاب دیوبند)
ما فی ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : وإن مات أحد سبعۃ الذین شارکوا فی البدنۃ ، وقال ورثتہ وہم کبار : اذبحوا عنکم وعنہ ، صح ذبحہا استحساناً عن الجمیع لوجود قصد القربۃ عن الکل۔ (۴/۱۷۳، کتاب الأضحیۃ ، البحر الرائق : ۸/۳۲۵، کتاب الأضحیۃ ، الہدایۃ : ۴/۴۴۹، کتاب الأضحیۃ)
(۲) ما فی ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : لو ذبحوہا بلا إذن الورثۃ لم یجزہم ، لأن بعضہا لم یقع قربۃ ۔ (۹/۳۹۵)
ما فی ’’ الہدایۃ ‘‘ : ولو مات واحد منہم فذبحہا الباقون بغیر إذن الورثۃ لا یجزیہم ، لأنہ لم یقع بعضہا قربۃ ۔ (۴/۴۴۹ ،کتاب الأضحیۃ)=